چپ چپ چپ چپ دل کی چڑیاں: ایک محبت کی رومانوی کہانی


کہانی کا آغاز

یہ کہانی دو مرکزی کرداروں، فیروز اور عائشہ، کے گرد گھومتی ہے جو مختلف پس منظر سے تعلق رکھتے ہیں۔ فیروز ایک پاس کردی ہوئی لڑکی ہے جو اپنی تعلیم پر توجہ مرکوز کر رہی ہے، جبکہ عائشہ ایک متحرک اور خوش مزاج نوجوان لڑکی ہے جس کے خوابوں میں ایک شاندار مستقبل کا تصور موجود ہے۔ دونوں کا تعلق مختلف سماجی و معاشرتی حیثیت سے ہے، لیکن ان کی دوستی اور بعد میں محبت اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ حقیقی جذبات کسی بھی حد سے بڑھ کر ایک دوسرے کی جانب دلچسپی پیدا کرسکتے ہیں۔
کہانی کا آغاز ایک روشن صبح ہوتا ہے جب فیروز اور عائشہ ایک مقامی پارک میں ملتے ہیں۔ یہ ملاقات بے ترتیب تھی، جو دونوں کے لیے نہ صرف حیرت انگیز، بلکہ ایک نئی زندگی کی شروعات کا سبب بنتی ہے۔ پارک کی خوبصورت فضاء اور چڑیاوں کی چہچہاہٹ میں وہ دونوں ایک دوسرے کی موجودگی میں کس طرح خود کو کھو دیتے ہیں، یہ ایک خاص لمحہ ہوتا ہے۔ یہ پہلی ملاقات فیروز کو اس حقیقت کا احساس دلاتی ہے کہ زندگی میں خوشی اور محبت کی اہمیت کیا ہے۔
عائشہ کی مسکراہٹ، فیروز کے دل پر ایک گہرا اثر چھوڑتی ہے، اور اخلاقی عوامل انھیں ایک دوسرے کی جانب کھینچ لاتے ہیں۔ ان کی ابتدائی گفتگو میں ایک خاص خوشبو ہوتی ہے، جو اس بات کی علامت ہے کہ یہ دوستیاں محبت کی شکل اختیار کر سکتی ہیں۔ یہ لمحہ ان کے درمیان ایک پل بناتا ہے، جہاں سے محبت کی شروعات ہوتی ہے۔ کہانی کا یہ آغاز دونوں کرداروں کی زندگیوں میں ایک دلچسپ موڑ لاتا ہے اور قاری کو مزید جاننے کی خواہش میں مبتلا کر دیتا ہے۔

خوابوں کا شہر

محبت میں خوابوں کا شہر ایک منفرد جذبہ ہوتا ہے، جہاں خیالوں اور امیدوں کی چڑیاں آزادانہ پرواز کر رہی ہوتی ہیں۔ ان کی دنیا میں ہر لمحہ ایک نئی کہانی کو جنم دیتا ہے، ہر جگہ ایک الگ معنی رکھتا ہے۔ ان کی محبت کے لمحے ہمیشہ خاص ہوتے ہیں، جب وہ ایک دوسرے کے ساتھ تھے، ان لمحات نے ان کے دلوں میں خوشیوں کے باغات کھول دیے۔
مثلاً، جب وہ سمندر کے کنارے چلتے ہیں، ہوا میں نمکین خوشبو ان کی محبت کی شدت کو بڑھا دیتی ہے۔ ایک جھیل کے کنارے بیٹھ کر وہ ایک دوسرے کو اپنی خواہشات اور خوابوں کے بارے میں بتاتے ہیں۔ ان کی آنکھوں کی چمک اور لہجے کی محبت ہر بات میں جھلکتی ہے، اور یہی وہ خاص لمحہ ہوتا ہے جہاں وہ اپنے خوابوں کو حقیقت کے قریب لانے کا عزم کرتے ہیں۔
دوستوں کے درمیان ایک خوشگوار محفل میں بیٹھ کر وہ ایک دوسرے کے لیے مسکراہٹوں کا تبادلہ کرتے ہیں۔ یہ چھوٹے چھوٹے لمحات ان کی محبت کی بنیاد بن جاتے ہیں، جہاں وہ زندگی کی تیز رفتاری کو بھول کر اپنے خوابوں کی گہرائیوں میں کھو جاتے ہیں۔ جب وہ ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھتے ہیں تو انہیں لگتا ہے کہ دنیا کی ہر چیز ان کی محبت کی کہانی میں شامل ہو گئی ہے۔
آہستہ آہستہ وہ اپنی محبت اور امیدوں کا ایک نیا شہر بناتے ہیں، جہاں ہر روز ایک نئی امید جگمگاتی ہے۔ یہ شہر صرف ان کے خوابوں کا منبع نہیں بلکہ ان کی محبت کی پختگی کا بھی گواہ ہے۔ چاہے وہ پھر سے زندگی کی تیز راہوں پر کیوں نہ نکلیں، ان کے خوابوں کے شہر میں ان کی محبت ہمیشہ ایک خاص مقام رکھے گا۔

پہلا جھگڑا

کہانی کی شروعات میں، دونوں کرداروں کے درمیان پہلی جھگڑا ایک عام صورتحال کے تحت وقوع پذیر ہوا۔ یہ ایک فطری عمل ہے، جہاں کبھی کبھار دو مختلف نظریات کے درمیان اختلاف رونما ہوتے ہیں۔ دونوں کی محبت کی بنیاد تو مضبوط تھی، مگر یہ جھگڑا ایک بڑی تبدیلی کا باعث بن گیا۔ جھگڑے کی اصلی وجوہات میں ایک دوسرے کی توقعات، سمجھ بوجھ کی کمی، اور غیر ارادی طور پر کہے گئے کچھ الفاظ شامل تھے۔
یہ جھگڑا اس وقت ہوا جب دونوں نے کسی مخصوص معاملے پر شدید اختلاف رائے کا اظہار کیا۔ ایک طرف سے، وہ اپنی آنکھوں کے سامنے اپنی محبت کی خوبصورت شکلیں دیکھتے تھے، جبکہ دوسری طرف، ان کے دلوں میں پریشانی بڑھتی جا رہی تھی۔ جیسے ہی بات چیت کے دوران جذبات کی تلخی بڑھنے لگی، دونوں نے ایک دوسرے کے رویے پر غیر معمولی ردعمل ظاہر کیا۔ یہ رویہ عموماً محبت کی نازکیت کا ایک پہلو ہے، جہاں انسان اپنے قریب ترین لوگوں کے ساتھ زیادہ حساس ہو جاتا ہے۔
جھگڑے کے بعد کی صورت حال بھی خاصی پیچیدہ تھی۔ دونوں کے دل میں ایک دوسرے کے لیے محبت تو موجود تھی، مگر وہ اپنی سطحی تلخیوں کی وجہ سے ایک دوسرے سے دور ہونے لگے تھے۔ اس جھگڑے نے انہیں یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ آیا ان کی محبت اتنی مضبوط ہے کہ وہ ان اختلافات کو ختم کر سکیں یا نہیں۔ محسوس ہوا کہ یہ ایک اہم موڑ ہے، جو انہیں ایک نئے انداز میں سوچنے پر مجبور کرسکتا ہے۔ درحقیقت، یہ جھگڑا ان کی محبت کی باریکیوں کو سمجھنے کا ایک موقع بن گیا، جس نے ان کی رشتے کو اور زیادہ مضبوط کیا۔

کھفہ کا سایا

محبت کے رشتے میں جھگڑے اور خفائی کے لمحات کبھی کبھی ایک ایسا سایہ بن جاتے ہیں جو دلوں کے درمیان فاصلے پیدا کر دیتا ہے۔ “جب سے خفا” کے موضوع پر غور کرتے ہوئے ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ کیسے منفی جذبات کسی بھی محبت کی بنیادوں کو متزلزل کر سکتے ہیں۔ عام طور پر، محبت کی بنیاد دوستانہ تعلقات اور خوشیوں پر ہوتی ہے، لیکن جب خفائی کا سایہ آتا ہے تو یہ محبت کی روشنی کو مدھم کر دیتی ہے۔
جب کوئی شخص اپنے شریک حیات سے خفا ہوتا ہے، تو یہ احساس جھگڑوں، بدگمانیاں اور ناپسندیدگیاں پیدا کرتا ہے۔ ایسے وقت میں، محبت کی حدیں ختم ہونے لگتی ہیں اور دونوں کی جانب سے ایک دوسرے سے فاصلے پیدا ہو جاتے ہیں۔ یہ فاصلے اس ‘سبز شجر’ کی طرح ہوتے ہیں جو محبت کے رشتے کے بیچ میں آ کھڑا ہوتا ہے۔ شجر کی شاخیں اور پتیاں خود تو خوبصورت نظر آتی ہیں، لیکن یہ حقیقت میں دو دلوں کے درمیان حائل ہو رہی ہوتی ہیں۔
خفا ہونے کی صورت میں ایک دوسرے کی فضا میں خفگی گھل جاتی ہے، جس کی وجہ سے ایک دوسرے کی محبت کا احساس کمزور پڑ سکتا ہے۔ دل میں محسوس ہونے والا خفہ کا سایا یقیناً محبت کی گہرائی پر منفی اثر ڈال سکتا ہے۔ جب یہ سایا طویل ہوتا ہے تو یہ محبت میں بے حس ہونے کا باعث بن جاتا ہے۔ اس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ دونوں فریقین کی توجہ محبت کی حقیقی جزئیات سے بھٹک کر اس خفہ پن کے مسائل کی جانب مرکوز ہو جاتی ہے، جس کا نتیجہ اکثر محبت کے رشتے کی کمزوری کی صورت میں نکلتا ہے۔
یقینی طور پر، اس خفائی کے سایے کو دو افراد کے درمیان خوشگوار تعلقات کے دوبارہ استحکام کے لئے دور کرنا ضروری ہوتا ہے۔ جہاں ایک طرف خفائی کا سایہ محبت کے راستے میں رکاوٹ ہے، وہاں دوسری طرف پانی کی مانند محبت کو پھر سے جینے کا خیال بھی موجود ہے۔

محبت کی جستجو

محبت کی جستجو ہمیشہ انسان کی زندگی کا ایک اہم حصہ رہی ہے۔ اس کہانی میں، دو کرداروں کی محبت کے راستے میں کئی چیلنجز آتے ہیں، جو انہیں اپنی اندرونی خواہشات اور جذبات کی گہرائی تک لے جاتے ہیں۔ یہ سفر صرف محبت تلاش کرنے کا نہیں بلکہ خود کو سمجھنے اور روحانی ترقی کا بھی ہے۔
جب یہ کردار اپنی محبت کی بازیابی کی کوشش کرتے ہیں، تو وہ اپنی غلطیوں کا اعتراف بھی کرتے ہیں۔ یہ خود آگاہی نہ صرف ان کے روابط کو مستحکم کرتی ہے بلکہ انہیں اپنے آپ کو بہتر جاننے کا موقع بھی فراہم کرتی ہے۔ محبت کا یہ سفر انہیں دوری کے احساس سے نفرت کے ساتھ ساتھ قربت کی اہمیت کا بھی احساس دلاتا ہے۔ ہر قدم پر، وہ ایک دوسرے کے لیے اپنے جذبات کی شدت کو محسوس کرتے ہیں اور اپنی محبت کی حقیقی نوعیت کو سمجھتے ہیں۔
محبت کی تلاش میں، ان کے درمیان کئی رکاوٹیں آتی ہیں لیکن یہ دونوں ان رکاوٹوں کو اپنی محبت کی طاقت کے ذریعے عبور کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ چیلنجز کا سامنا کرتے ہوئے، وہ یہ سیکھتے ہیں کہ حقیقی محبت صبر، سمجھ بوجھ اور قبولیت کے بغیر مکمل نہیں ہوتی۔ یہ سفر ایک دوسرے کی تفہیم اور شراکت پر بھی زور دیتا ہے۔
یہ محبت کی جستجو نہ صرف ایک رومانوی کہانی ہے بلکہ ایک گہرے تعلقات کے لیے درکار خود کھوج کا بھی عکاس ہے۔ دونوں کردار، اپنی محبت کے سفر میں، نہ صرف ایک دوسرے کے ساتھ بلکہ اپنے آپ کے ساتھ بھی ایک نیا رشتہ قائم کرتے ہیں، جو ان کی زندگی میں ایک نئی روشنی کا اضافہ کرتا ہے۔

دل کی چڑیاں

محبت کی کہانی میں کبھی کبھی ایسے لمحے آتے ہیں جو دل کی چڑیا کو پھر سے زندہ کر دیتے ہیں۔ یہ وہ لمحات ہوتے ہیں جب دو افراد کی محبت کی شدت کو دوبارہ دریافت کیا جاتا ہے۔ ان لمحوں میں، احساسات کی لہریں ایک دوسرے کے دلوں کو چھو لیتی ہیں اور ایک نیا تعلق متعارف کراتی ہیں۔ جب وہ دونوں ایک دوسرے کی آنکھوں میں جھانکتے ہیں، تو انہیں اپنی محبت کی گہرائی کا احاطہ کرنے کا موقع ملتا ہے۔ یہ صورت حال صرف جذبات کی شدت کا مظہر نہیں ہے، بلکہ اس میں محبت کی اصلاح اور ایک دوسرے کی اہمیت کو سمجھنے کا ایک نیا دروازہ بھی کھلتا ہے۔
دل کی چڑیاں دوبارہ اڑان بھرنے لگتی ہیں، جیسے ہی وہ دونوں ایک جگہ بیٹھتے ہیں، کہ ان کے دلوں کی باتیں ایک دوسرے کے ساتھ کھل کر ہوتی ہیں۔ ایک تھوڑی سی بات چیت، ایک مسکراہٹ یا ایک چھوٹا سا سنگھار ان کے درمیان بندھن کو مزید مضبوط بناتا ہے۔ وہ لمحہ انہیں یہ یاد دلاتا ہے کہ محبت کبھی بھی ماضی کے زخموں کو چننے کا عمل نہیں بلکہ ایک نئے سفر کا آغاز ہے۔ یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ انسان کی زندگی میں محبت ایک طاقتور عنصر ہے، جو کبھی کبھار چند یادوں میں ہی نظر آتی ہے۔
جب وہ اپنی دل کی چڑیاں دوبارہ پاتے ہیں، تو ان کے دل میں ایک نئی امید اور خوشی کی روشنی چمک اٹھتی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اصل محبت کی قدریں کبھی نہیں بدلتیں، بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ یہ صرف مزید گہری ہوتی ہیں۔ یہ لمحے انہیں اپنی زندگی کی اہمیت اور ایک دوسرے کی قدر کا احساس دلاتے ہیں، جس کی بنیاد انکی محبت میں ہے۔ اس طرح وہ محبت کی سچائی کو نئے سرے سے سمجھتے ہیں اور ایک نئے تعلق کی بنیاد پر اپنی زندگیوں کا آغاز کرتے ہیں۔

پھر سے سبز درخت

پیار کی خوبصورتی ایک حیرت انگیز سفر کی مانند ہے، جہاں دل کی چڑیاں آپس میں محبت کے مضبوط بندھن میں بندھی ہوئی ہیں۔ جب دونوں کردار ایک دوسرے کی محبت کی طاقت کو محسوس کرتے ہیں، تو وہ اپنی زندگیوں میں نئے موسموں کی مانند تازگی کو محسوس کرتے ہیں۔ اس سفر میں، وہ اپنی محبت کی نشوونما کے لئے ایک دوسرے کے ساتھ وقت گزارنے کا عزم کرتے ہیں، جس سے ان کے درمیان کا رشتہ مزید مضبوط ہوتا ہے۔
‘سبز شجر’ کا تصور اس محبت کی علامت کے طور پر ابھرتا ہے، جو ان کے رشتے کی مضبوطی کی نمائندگی کرتا ہے۔ یہ شجر اس بات کی یاد دہانی ہے کہ محبت کے درخت کو پانی دینا اور اس کی دیکھ بھال کرنا ضروری ہے تاکہ وہ پھل پھول سکے۔ ہر روز کی کوششیں، مسکراہٹیں، اور ایک دوسرے کی قدردانی اس درخت کی زندگی کے لئے درکار محبت کی مٹی میں شامل ہوتی ہیں۔
جب وہ ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھتے ہیں، تو وہ اپنے دل کی گہرائیوں سے ایک دوسرے کی محبت کی حقیقت کو محسوس کرتے ہیں۔ ہر لمحہ جو وہ ایک دوسرے کے ساتھ گزارتے ہیں، ایک نئے برگ کے پھلنے کے مانند ہوتا ہے، جو ان کی محبت کو زندہ رکھتا ہے۔ اس سفر میں ناکامیاں بھی ان کے راستے میں آتی ہیں، مگر وہ اپنی محبت کی طاقت کو تسلیم کرتے ہوئے ان مشکلات کا سامنا کرتے ہیں۔ ان کی قوت محبت انہیں ان چیلنجز کے باوجود ہمیشہ آگے بڑھنے کی تحریک دیتی ہے۔
یقیناً، اس سلسلے میں ایک گہرا عقیدہ بھی پایا جاتا ہے کہ جتنا ان کی محبت میں صداقت ہوگی، اتنے ہی سبز درخت مضبوط ہوں گے۔ یہ محبت نہ صرف ان کے رشتے کی بنیاد بنے گی، بلکہ ان کی زندگیوں میں بھی خوشی، امن، اور سکون کی ایک نئی لہر پیدا کرے گی۔

ایک نئے سفر کا آغاز

کہانی کے اس مقام پر، مرکزی کرداروں کی محبت ایک نئے سفر کا آغاز کرتی ہے، جو ان کے لئے نہ صرف ایک رومانوی تعلق کو ظاہر کرتا ہے بلکہ ان کی زندگی میں ایک نئے باب کا آغاز بھی کرتا ہے۔ جب وہ ایک دوسرے کے ساتھ زندگی گزارنے کی خواہش کا اظہار کرتے ہیں تو ان کے ذہنوں میں بہت سے خواب بُنے جاتے ہیں۔ ان خوابوں میں خوشیوں کی آرزیں، کامیابیوں کی خواہش اور مشترکہ زندگی کی خوبصورت لمحات کی پیش گوئی شامل ہے۔
محبت کا یہ سفر انہیں ایک نئی سمت کی طرف لے جاتا ہے، جہاں وہ نہ صرف ایک دوسرے کی معاونت کرتے ہیں بلکہ اپنی شخصی ترقی کی راہوں پر بھی گامزن رہتے ہیں۔ اس دوران، وہ اپنی ملازمتوں کی کامیابی، مالی استحکام اور سماجی رشتوں کی تشکیل کے بارے میں اپنے اہداف کا تعین کرتے ہیں۔ ان کی محبت کی بنیاد اعتماد، احترام اور تفہیم پر ہے، جو انہیں مشکل لمحات میں بھی ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہونے کی طاقت عطا کرتا ہے۔
بہت سے چیلنجز کے باوجود، وہ ایک دوسرے کا ساتھ دیتے ہیں اور اپنے خوابوں کو حقیقت میں بدلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ سفر نہ صرف ان کی محبت کی ترقی کا عکاس ہے، بلکہ یہ ان کی شخصیت کی نشوونما اور انفرادی خوابوں کی تفسیر بھی پیش کرتا ہے۔ معیار زندگی، ذاتی اور پیشہ ورانہ مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے وہ ایک دوسرے کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔
یہ نیا سفر ان کے لئے محبت کا نیا پیمانہ قائم کرتا ہے، جو ان کے رشتے کو مضبوط اور مستحکم کرنے کا باعث بنتا ہے۔ ان کے خواب، جو قبل ازیں محض خیالات تھے، اب ایک ممکنہ مستقبل کی صورت اختیار کر لیتے ہیں، جہاں وہ دونوں مل کر ایک خوبصورت زندگی کے لمحات کو بانٹنے کے لیے تیار ہیں۔

اختتام اور سیکھ

محبت کی کہانیوں کا سفر اکثر مختلف شدتوں اور تجربات سے بھرپور ہوتا ہے۔ چپ چپ چپ چپ دل کی چڑیاں کی داستان میں، ہم نے جھگڑوں اور مسرتوں کے لمحات کو دیکھا ہے، جو اس کہانی کی روح ہیں۔ یہ سفر ہم پر یہ واضح کرتا ہے کہ محبت میں اتار چڑھاؤ ہمیشہ موجود رہتے ہیں۔ جب دو افراد ایک دوسرے کے ساتھ جڑتے ہیں، تو ان کے درمیان کیمسٹری کے ساتھ ساتھ، اختلافات بھی آتے ہیں جو کہ بعض اوقات گذشتہ خوشیوں کا منظر نامہ مستحکم کر سکتے ہیں۔
محبت کی داستانیں ہمیں سکھاتی ہیں کہ ہر مشکل وقت میں امید کی کرن چھپی ہوتی ہے۔ جب ہمارے کردار ایک دوسرے کے ساتھ لڑتے ہیں تو وہ ایک دوسرے کی حقیقت کو سمجھنے اور قریب ہونے کا موقع بھی پاتے ہیں۔ یہ ایک اور سبق ہے کہ حقیقی محبت کبھی ختم نہیں ہوتی، وہ ہمیشہ ایک نئے آغاز کی راہ دکھاتی ہے۔ ہر جھگڑے کے بعد ایک نئی سمجھ بوجھ پیدا ہوتی ہے، جو کہ محبت کو مزید گہرا کرتی ہے۔
اختتامی لمحوں میں، ہم یہ جانتے ہیں کہ محبت کی یہ کہانی صرف خوشیوں کا مجموعہ نہیں ہے بلکہ اس میں درد، سیکھنے کے تجربات اور کشمکش کی عناصر بھی شامل ہیں۔ اس کہانی نے ہمیں یہ سکھایا ہے کہ کبھی کبھی مشکلات بھی ہماری محبت کو مزید مضبوط بنا دیتی ہیں۔ لہذا، ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ محبت کا سفر مستقل سیکھنے کا عمل ہے، اور ہر اس لمحے میں جو چراغ جلاتا ہے، وہ ہمارے دلوں کی گہرائی کو بڑھاتا ہے۔

چہرے پر مسکراہٹیں دل میں کدورتیں، کہنے کو یاریاں ہیں حقیقت منافقت


تعارف

انسانی معاشرت میں میل جول اور مختلف قسم کی معاشرتی رابطے ہمارا روزمرہ معمول ہوتا ہے۔ بظاہر خوش دکھنے اور خوشامد کرنے کا ہمارے روزمرہ زندگی کا حصّہ بن چکا ہے۔ لیکن، اس سطحی محبت اور دوستداری کے پیچھے دراصل کیا چھپا ہوتا ہے؟ ہمارے چہروں پر جب مسکراہٹیں بکھیرتی ہیں، کیا ان کے پیچھے دل کی سچائی بھی اتنی ہی صاف ہے؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لئے ہمیں اپنے معاشرتی رابطوں پر غور کرنا ہوگا۔
جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں، اکثر اوقات لوگ بظاہر ہنس مکھ، نرم گو اور دوست نما ہوتے ہیں، لیکن اندرونی طور پر ان کے دل میں حسد، بغض، اور ناگواری کے جذبات پوشیدہ ہوتے ہیں۔ یہ داخلی اور خارجی تناقض ہمیں مستقلاً ایک سمجھوتہ اور منافقت کی دلدل میں دھکیل دیتا ہے۔ بظاہر ہماری یاریاں اور محبتیں ہمارے باہمی تعلقات کو مضبوط بناتی ہیں، لیکن حقیقت میں یہ تعلقات کتنا بلند پیمانے پر سچے ہوتے ہیں؟
اس مضمون میں ہم اس تلخ حقیقت پہ روشنی ڈالیں گے کہ کیسے بظاہر ہنستے چہروں اور دلوں کے اندر چھپی تناؤ اور کدورتیں ہمارے انسانی رابطوں کو بگاڑ دیتی ہیں۔ ہم اس پر بھی بات کریں گے کہ کیوں لوگ اس منافقت کا شکار ہوجاتے ہیں اور کس طرح یہ معاشرتی تناؤ ہمارے ذہنی سکون کو متاثر کرتا ہے۔
اسی موضوع کے تحت ہم مختلف پہلوؤں پر غور کریں گے جو بظاہر خوشامد اور خوش دلی کو فروغ دیتے ہیں، مگر اصل میں ان کے پیچھے دل کی تلخیاں کیسے کارفرما ہوتی ہیں۔ اس طرح ہم نہ صرف اپنے آپ کو بہتر طور پر سمجھ سکیں گے، بلکہ دوسروں کے ساتھ اپنے تعلقات کو بھی بہتر بنا سکیں گے۔

دوستی کی خوبیاں

دوستی انسانی زندگی کا ایک قیمتی جزو ہے جو ہمارے جذباتی، ذہنی اور روحانی پہلوؤں کو ہمہ وقت تقویت فراہم کرتی ہے۔ جہاں حقیقی دوستی میں کئی خوبیاں پائی جاتی ہیں، ان میں سب سے نمایاں اعتماد، محبت اور قربانی کی خصوصیات ہوتی ہیں۔
اعتماد دوستی کی اصل بنیاد ہے۔ ایک حقیقی دوست وہ ہوتا ہے جس پر ہم اعتماد کر سکتے ہیں اور جو ہماری زندگی کے ہر اتار چڑھاؤ میں ہمارے ساتھ کھڑا ہوتا ہے۔ یہ وہ دوست ہیں جن کے ساتھ ہم اپنے دل کی باتیں بے جھجک کر سکتے ہیں اور جو کبھی ہمیں مایوس نہیں کرتے۔ ہمارا بھروسہ انہیں یہ موقع دیتا ہے کہ وہ ہماری زندگی میں بہتر فیصلے کرنے میں ہماری مدد کریں اور ہمیں مشکل لمحوں میں سہارہ دیں۔
محبت ایک اور اہم خوبی ہے جو سچی دوستی میں پائی جاتی ہے۔ یہ محبت غیر مشروط ہوتی ہے اور کسی قسم کے ذاتی فوائد کی طلب نہیں کرتی۔ سچے دوست ایک دوسرے کی خوشی میں خوش اور غم میں شریک ہوتے ہیں۔ یہ محبت اس بات کا ضامن ہے کہ کسی بھی طرح کی مشکلات میں دوستی کمزور نہ ہو بلکہ مضبوط تر ہو جائے۔
قربانی اس وقت کی مثال ہے جب ایک دوست اپنی خوشیوں کو اپنے دوست کی خوشیوں پر قربان کر دیتا ہے۔ یہ قربانیاں چھوٹی ہو یا بڑی، یہ دوستی کو مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ سچے دوست ایک دوسرے کی ضروریات کو اپنی ضروریات پر ترجیح دیتے ہیں اور وقت آنے پر اپنی مدد فراہم کرنے کو ہمیشہ تیار رہتے ہیں۔
سچی دوستی کا تعلق ایک دوسرے کے ساتھ سنجیدگی اور مخلصانہ رویے پر مبنی ہوتا ہے۔ اس میں دکھاوے اور منافقت کی کوئی جگہ نہیں ہوتی۔ یہ تعلق ایک دوسرے کی مدد، احترام اور محبت پر تشکیل پاتا ہے، جو دوسروں کے لیے ایک مثال قائم کرتا ہے۔

منافقت کی علامتیں

منافقت ایک ایسی صف کے ساتھ آتی ہے جو بظاہر دوستی اور محبت کی معلوم ہوتی ہے لیکن دراصل اس کے پیچھے پوشیدہ نیتیں ہوتی ہیں۔ منافقت کی علامات کو پہچاننا ضروری ہے تاکہ ہم خود کو اور اپنے ارد گرد کے لوگوں کو اس سے محفوظ رکھ سکیں۔
پہلی علامت جھوٹی تعریف ہے۔ منافق لوگ آپ کے سامنے ہمیشہ آپ کی تعریف کرتے ہیں، آپ کو ہر عمل میں صحیح ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں، مگر ان کے دل میں آپ کے لئے کچھ اور ہوتا ہے۔ دوہری بات چیت بھی منافقت کی اہم نشانی ہے؛ ایک موقع پر کچھ کہنا اور دوسرے موقع پر بالکل مخالف بات کرنا اس کی مثالیں ہیں۔
دوسری اہم علامت جھوٹ بولنا ہے۔ منافق لوگ اکثر جھوٹ کا سہارا لیتے ہیں تاکہ خود کو بہتر پیش کر سکیں یا دوسروں کو نقصان پہنچا سکیں۔ ان کی باتوں میں وزن نہیں ہوتا اور وہ اکثر اپنے الفاظ کو تبدیل کرتے رہتے ہیں۔
تیسری علامت دوغلی رویہ اختیار کرنا ہے۔ بعض لوگ کسی کے سامنے کچھ اور ہوتے ہیں اور پیٹھ پیچھے کچھ اور۔ سامنے والا شخص ان کے مخلص ہونے کا دھوکہ کھا جاتا ہے جبکہ وہ اپنے خیالات اور ارادوں میں بالکل الگ ہوتے ہیں۔
چوتھی علامت غیر ضروری شکایتیں ہیں۔ منافق لوگ ہمیشہ غیر ضروری شکایتیں کرتے رہتے ہیں، اپنی باتوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں تاکہ دوسروں کو اپنے سے کم تر محسوس کروا سکیں۔
آخری لیکن انتہائی اہم علامت یہ ہے کہ منافق لوگوں کا اخلاقی معیار مختلف ہوتا ہے۔ ان کے اصول لہذا مختلف لوگوں کے لئے مختلف ہوتے ہیں۔ ان کے طرز عمل میں مستقل مزاجی کی کمی ہوتی ہے جنہیں وہ اپنی موقع پرستی کی نذر کرتے رہتے ہیں۔
یہ چند اہم علامات ہیں جو ہمیں منافقت کو پہچاننے میں مدد دیتی ہیں۔ آگر کسی کے رویے میں یہ علامات نظر آئیں تو ہمیں محتاط رہنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم اپنے ارد گرد کے لوگوں سے سچے رہیں اور خود کو دھوکے سے بچا سکیں۔

سماجی دباؤ اور نقابیں

سماجی دباؤ ایک طاقتور موقع ہوتا ہے جو انسانوں کو مجبور کرتا ہے کہ وہ اپنے چہروں پر نقاب چڑھائیں اور حقیقی شخصیت کو چھپانے کی کوشش کریں۔ مختلف مقامات اور مواقع پر لوگ اپنی اصل شخصیتوں کو چھپانے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ معاشرتی توقعات اور معیارات پر پورا اترا جا سکے۔
دفتر میں، مثلاً، ایک ملازم اپنے حقیقی احساسات کو دبانے کی کوشش کرتا ہے تاکہ وہ اپنے ساتھیوں اور حکام کے سامنے ایک مثبت اور پروفیشنل تصویر پیش کر سکے۔ کسی بھی کمزوری یا ناخوشی کا اظہار کرنا کسی کو کام کرنے کی صلاحیتوں پر شک ظاہر کر سکتا ہے، جس کی وجہ سے لوگ اپنے حقیقی جذبات کو چھپانے پر مجبور ہوتے ہیں۔
اسی طرح، سماجی تقریبات میں بھی لوگ اپنی اصل شخصیت کو چھپاتے ہیں کیونکہ وہ سماجی طور پر قبولیت حاصل کرنے کے لئے کسی خاص نقش میں ڈھلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مثلاً، شادیوں، سالگرہ کی تقریبات یا کسی اور خوشی کے موقع پر لوگ اپنے اصل جذبات کو چھپاتے ہیں اور خوشی، مسکراہٹ اور خوش فہمی کا اظہار کرتے ہیں، چاہے اندر سے ان کا دل کچھ اور ہی کہہ رہا ہو۔
دوستوں کے درمیان بھی ایک شخص کی اصل شخصیت پوشیدہ رہ سکتی ہے کیونکہ وہ “اچھا دوست” یا “پرمسرت شخصیت” بننے کی کوشش کر رہا ہوتا ہے۔ یہ نقاب کسی وقت توڑی جا سکتی ہے، مگر عموماً یہ دباؤ اتنا شدید ہوتا ہے کہ اصل شخصیت کا اظہار ممکن نہیں ہوتا۔
یہ نقابیں اور سماجی دباؤ نہ صرف انفرادی سطح پر شخصیت کو متاثر کرتے ہیں بلکہ خود اعتمادی میں بھی کمی پیدا کر سکتے ہیں۔ لوگوں کا اپنی اصل شخصیت کا اظہار نہ کر سکنا، ان کے اندر ایک دائیمی تصادم اور کشمکش پیدا کرتا ہے جو ان کی ذہنی صحت کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔
دوغلے چہروں اور منافقت کی موجودگی معاشرتی اور ذاتی زندگی پر گہرے اثرات ڈالتی ہے۔ معاشرتی سطح پر یہ رویے اعتماد اور اطمینان کا خاتمہ کرتے ہیں، جس کے نتیجے میں خاندانی یا دوستوں کی بنیاد پر بنائے گئے تعلقات میں استحکام کی کمی پیدا ہوتی ہے۔ جب لوگ دوغلے رویے اختیار کرتے ہیں، ایک دوسرے سے جھوٹ بولتے ہیں، تو اعتماد کا فقدان بڑھتا ہے۔ یہ کمی لوگوں کو ایک دوسرے سے دور کرنے میں معاون ثابت ہوتی ہے، گویا معاشرتی بانڈز ٹوٹ جاتے ہیں۔
ذاتی زندگی میں یہ صورتحال انسان کے ذہنی سکون اور خوشی پر منفی اثرات ڈالتی ہے۔ انسان ہر وقت اس کوشش میں لگا رہتا ہے کہ وہ اپنی نقلی شخصیت کو برقرار رکھ سکے، جو اُس کی ذہنی صحت پر بوجھ بنتی ہے۔ مزید برآں، یہ نقلی رویہ انسان کے اندر احساس کمتری، گھبراہٹ اور عدم اعتماد کو پروان چڑھاتا ہے۔ ان جذبات کی بنیاد پر انسان اپنے حقیقی امکانات کو پہچان نہیں پاتا اور زندگی کی کامیابیوں سے محروم رہ جاتا ہے۔
اس کے علاوہ، دوغلے چہروں کی موجودگی پروفیشنل زندگی میں بھی مشکلات پیدا کرتی ہے۔ جب کسی ٹیم میں افراد اپنے اصل جذبات کو چھپاتے ہیں اور منافقت کا مظاہرہ کرتے ہیں، تو ٹیم کے اندر ہم آہنگی اور ٹیم ورک کی کیفیت متاثر ہوتی ہے۔ اس معیار کی کمی کی وجہ سے کاروباری یا پروفیشنل منصوبے ناکام ہوسکتے ہیں اور کارکردگی متاثر ہوتی ہے۔
اخلاقی طور پر دوغلے چہروں کا استعمال انسان کو مستقل دوغلے معیار کی طرف لے جاتا ہے، جس میں سچائی اور ایمانداری کی کوئی جگہ نہیں رہتی۔ نتیجتاً، انسان خود اپنی اخلاقی اقدار سے دور ہوجاتا ہے اور اپنی شناخت میں بحران کا سامنا کرتا ہے۔
یقینی طور پر دوغلے چہروں اور منافقت کا کوئی مثبت پہلو نہیں۔ یہ رویے شخصی، معاشرتی اور پروفیشنل زندگیوں کو نقصان پہنچاتے ہیں اور ان سے بچنے کے لئے سچائی اور ایمانداری کا راستہ اختیار کرنا بہت ضروری ہے۔

خود احتسابی کی ضرورت

خود احتسابی ایک ایسی کلید ہے جو ہمیں اپنی ذہنی اور عملی زندگی میں شفافیت فراہم کرتی ہے۔ یہ نہ صرف ہمیں اپنی کوتاہیوں اور غلطیوں کا احساس دلاتی ہے بلکہ ہماری ترقی کے نئے راہیں بھی ہموار کرتی ہے۔ جب ہم خود احتسابی کی روشنی میں اپنی ذات کا جائزہ لیتے ہیں، تو ہمیں اپنے رویوں اور افکار کی کمزوریاں نظر آتی ہیں، جن کی اصلاح کر کے ہم اپنی شخصیت میں مثبت تبدیلیاں لا سکتے ہیں۔
خود احتسابی کا پہلا قدم اپنے جذبات اور خیالات کا گہرائی سے مطالعہ کرنا ہوتا ہے۔ یہ جانچنے کی ضرورت ہوتی ہے کہ کہاں ہم دوسروں کے ساتھ بے ایمانی یا منافقت کر رہے ہیں۔ یہ صرف دوسروں کی جانب دیکھنے کی بات نہیں بلکہ اپنے اندر جھانکنے کی بھی ضرورت ہے۔ بسا اوقات ہم اپنی خامیوں سے بے خبری میں ہوتے ہیں، جب کہ حقیقت میں ہمیں خود اپنی ہی اصلاح کی ضرورت ہوتی ہے۔ خود احتسابی کا یہ عمل ہمیں سچائی کے قریب لے آتا ہے اور ہمیں منافقت سے باز رکھتا ہے۔
دوسری طرف، خود احتسابی ہمیں دوسروں کے نظریات اور خیالات کو سمجھنے کی بھی صلاحیت عطا کرتی ہے۔ جب ہم اپنے رویوں کو سنوارتے ہیں، تو ہمیں دوسروں کی مشاورت کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ مختلف نقطہ نظروں کو سننے اور ان سے سیکھنے کی یہ خود احتسابی ہی ہمیں ایک بہتر انسان بناتی ہے۔
خود احتسابی کے ذریعے اپنے مقاصد اور ارادوں کو واضح کرنا بھی ممکن ہوتا ہے۔ یہ ہمیں وہ توانائی دیتی ہے جس سے ہم اپنی زندگی کی راہ کو صحیح سمت میں گامزن کر سکتے ہیں۔ مسلسل خود احتسابی ہمیں اس بات کا احساس دلاتی ہے کہ تبدیلی ممکن ہے، اور یہ کہ ہم خود اپنی دنیا کو بہتر بنا سکتے ہیں۔

سچے تعلقات کی پہچان

سچے تعلقات کی پہچان کرنا ہمیشہ ایک چیلنج ہوتا ہے، لیکن چند بنیادی نکات کی مدد سے یہ کام آسان بنایا جا سکتا ہے۔ سب سے پہلے، سچے تعلقات کی بنیاد ایمان داری پر ہوتی ہے۔ ایک سچا دوست وہ ہوتا ہے جو آپ کے ساتھ ہمیشہ سچ بولے، چاہے وہ کتنا ہی مشکل کیوں نہ ہو۔ ایمان داری اس کردار کی جڑ ہے جو سچے تعلقات کو مضبوط بناتی ہے۔
دوسری اہم بات، سچے دوست آپ کے کامیابیوں اور ناکامیوں میں برابر کے شریک ہوتے ہیں۔ وہ نہ صرف آپ کی خوشیوں میں ساتھ ہوتے ہیں بلکہ مشکل اوقات میں بھی آپ کا ساتھ دیتے ہیں۔ اگر آپ کے دوست مصیبت کے وقت آپ کا ساتھ دیتے ہیں، تو یقیناً وہ سچے دوست ہیں۔
اسی طرح، سچے تعلقات میں احترام اور ترجیح کی کمی نہیں ہوتی۔ ایک سچا دوست آپ کی رائے کا احترام کرتا ہے اور آپ کی ضروریات کو اہمیت دیتا ہے۔ وہ کسی بھی موقع پر آپ کی بات کو نظر انداز نہیں کرتے اور نہ ہی آپ کو دھوکہ دیتے ہیں۔ ان چیزوں کی موجودگی سچے تعلقات کا ثبوت ہیں۔
تجربات کی گواہی بھی سچے تعلقات کی پہچان میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ ایسے دوست جو بار بار اپنی وفاداری کا ثبوت دیتے ہیں، وہ سچے تعلقات کی بنیاد بناتے ہیں۔ وہ کبھی بھی آپ کی پیٹھ پیچھے بات نہیں کرتے اور نہ ہی آپ کے اعتماد کو ٹھیس پہنچاتے ہیں۔
آخری مگر نہایت اہم بات، سچے تعلقات کے لیے ضروری ہے کہ وہ وقت کے ساتھ ساتھ مضبوط ہوتے جائیں۔ وقت کے امتحان میں سچے دوست ہی کامیاب رہتے ہیں۔ باقاعدگی سے بات چیت کریں، تعلقات کو نکھارنے کی کوشش کریں، اور ایک دوسرے کا سہارا بنیں، یہی سچے تعلقات کی پہچان ہے۔

خلاصہ اور اقدامات

آخر میں، چہرے پر مسکراہٹیں اور دل میں کدورتیں کے باوجود دوستی اور تعلقات میں حقیقی بہتری لائی جا سکتی ہے۔ منافقت سے بچنے اور حقیقی دوستیاں بنانے کے لیے سنجیدہ اقدامات ضروری ہیں۔

سب سے پہلے، سچائی اور اخلاص کا دامن کبھی چھوڑنا نہیں چاہیے۔ لوگوں سے کھل کر بات کریں اور انہیں اپنے احساسات سے آگاہ کریں۔ مسائل کو مندرجہ ذیل روایتی طریقوں سے حل کرنے کی کوشش کریں:

1. خودآگاہی پیدا کریں

مثبت تعلقات کے لیے اپنی ذات کے متعلق آگاہی ضروری ہے۔ اپنی کمزوریوں کو پہچانیے اور ان پر کام کیجیے۔ اس سے نہ صرف آپ کی کمزوریاں دور ہوں گی بلکہ آپ کی سچائی بھی بڑھ جائے گی۔

2. رائے کا تبادلہ

دوستی میں باہمی رائے کا تبادلہ اہم ہے۔ دوسروں کے نقطہ نظر کو سمجھنے کی کوشش کریں اور کھلے دل سے اپنے خیالات کا اظہار کریں۔ یہ تعلقات میں شفافیت کو بڑھانے میں مددگار ہوگا۔

3. معذرت اور بخشش

اگر آپ سے کوئی غلطی ہوگئی ہے تو عطا کردہ صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے معذرت کرنے میں دیر نہ کریں۔ اس سے آپ کی سچائی اور خلوص سامنے آئے گا اور تعلقات از سر نو بہتر ہوں گے۔
آخر میں، اپنے اہداف اور توقعات کو صاف صاف بیان کریں۔ دیگر کے ساتھ ایمانداری برتنے سے نہ صرف آپ کا وقار بڑھتا ہے بلکہ حقیقی دوستوں کی محبت اور اعتماد بھی حاصل ہوتا ہے۔
اس روڈ میپ کو عملی جامہ پہناتے ہوئے ہم چارہ جوئی اور منافقت سے بچ سکتے ہیں، اور ایک مضبوط، مضبوط اور مثالی سماج کو فروغ دے سکتے ہیں جہاں حقیقی دوستیاں پروان چڑھتی ہیں۔

Film That Lit My Fuse Finale: Maverick Kevin Costner On The Epics That Forged His Storytelling Vision & How ‘Horizon’ Can Wind Up A Win

As his Horizon: An American Saga — Part 2 premieres Saturday at the Venice Film Festival, Oscar-winner Kevin Costner graces the final installment of The Film That Lit My Fuse, in a special extended segment. We hatched this video feature in the teeth of the pandemic several years ago as a way to give a shut-down Hollywood comfort by having top directors, actors and writers break down the influences that sent them down the storytellers path. The feature is being retired because of the demand for shorter and less frequent appearances of Fuse, which went against the spirit of something meant to take its time. Fuse began with Francis Coppola and subsequent segments included the late William Friedkin, Nicolas Cage, Michelle Yeoh, Tom Rothman, Jamie Lee Curtis, Sylvester Stallone, Matthew McConaughey and hundreds of others.

Beacons Are Beckoning: How Mobile Technology Is Changing Retail

The impact of mobile technology on retail

Mobile technology is taking the retail market by storm. With technological advances occurring all the time, companies must adapt. Companies such as PayPal, Amazon, Samsung and Apple have implemented media for consumers to conduct transactions in the palm of their hand. Here’s how mobile technology is changing retail.

The impact of mobile technology on retail

Embracing mobile technology, which has become an integral part of our daily lives, is a necessity for the retail industry and a gateway to numerous opportunities for growth and development. Adopting mobile technology allows businesses to:

  • Create personalized, multichannel customer touchpoints and experiences. Brands can create customer journeys through their websites, social media profiles, mobile apps, email marketing efforts and brick-and-mortar locations. However, businesses must ensure their customers experience a seamless transition from one touchpoint to the next — or their efforts could fail to deliver the desired results.
  • Automate in-store inventory processes for brick-and-mortar stores. Through mobile associate apps, employees can receive real-time notifications on new order shipments, help customers find items at another store location and place customer orders for home delivery. Together, these can provide a more streamlined and personalized experience for shoppers.
  • Develop augmented reality touchpoints to elevate their brand reputation. Augmented reality applications may include virtual fitting rooms, pop-up sales, exclusive discounts for customers using the app and interactive virtual displays in brick-and-mortar locations.

How retail businesses can use mobile technology

Retail businesses can incorporate mobile technology into their overall sales strategies in several ways. Here are a few of the most common and effective solutions.

Retailer apps

A retailer app enables customers to make purchases online. Every retailer should have an app. A good mobile app is more than just a convenient platform for making purchases; it must also provide a personalized “experience” that relates to consumers’ interests and conveys details about items for sale. These personalized experiences include emailing receipts, a 24/7 online store and inventory updates. [Related article: Financing Your Retail Store]

FYI

Retailers should determine if they are better suited for a mobile app or a mobile website.

Push-based apps

The first apps were pull-based, meaning the user had to do something, such as request information, look up a product or put an item in a shopping cart. Today’s apps are push-based, which means they anticipate user requests and provide pertinent information based on users’ needs. So if an app “knows” a user is interested in a certain product, it will automatically send updates about pricing information or availability without any action from the user. Push-based apps allow for personalized user engagement that can target inactive users to enable re-engagement. The best feature of push-based apps is that no personal information is required to opt in.

Tip

Push notifications can engage inactive users and serve as reminders for active users.

Beacons and mobile ads

In-store beacons — small and relatively inexpensive Bluetooth devices placed throughout a store — add another dimension to the push concept. If the shopper allows beacon notifications, these devices transmit not only product information, but also sales notifications whenever the shopper is within range. Beacons can also be used to display ads customized to individual shoppers’ preferences and interests. If a customer previously clicked on a company’s online ad and then walked into the store to browse, the beacon would link the customer’s ad visit data and could interact with the customer while they shop — for example, giving them additional details about a certain item or offering a coupon to incentivize a purchase.

Mobile payments

Apple Pay and Google Wallet are well on their way to widespread acceptance. Retailers have had to upgrade to top point-of-sale (POS) systems to accommodate the EMV chips major credit cards now have in place of magnetic stripes. These new systems typically also have the capability to accept credit card information (as well as store loyalty cards and gift cards) from a mobile app. The convenience factor here is twofold: There is no need to carry physical cards, and the customer has the ability to simply tap and purchase at a product display to quickly complete a transaction.

The benefits of using mobile technology

Mobile technology provides businesses with another avenue for customer connection. Although only 48 percent of small businesses currently have a mobile app, about 27 percent plan to build one to increase their sales, according to a survey by Top Design Firms. Here are some of the reasons businesses are using such technology.

Reaching shoppers via mobile

Online shopping has become increasingly popular in recent years — a trend that’s only expected to continue. According to Statista research, the number of e-commerce users in the U.S. is expected to reach a peak of 335.5 million users by 2029. Many large companies are joining this mobile retail world by implementing mobile payment apps, which allow customers to make mobile payments through their own personalized medium, such as PayPal or Venmo, to conduct transactions.

Improving the customer experience

Mobile technology makes the shopping experience more efficient, personalized and convenient. A positive customer experience is essential to any retailer. Mobile apps can help locate items, provide customer service and simplify the checkout processes. This benefits the retailer’s bottom line as well. Enabling customers to get information and make purchases means less need to staff cashier positions. That can reduce labor costs and eliminate the time and hassle of scheduling a workforce frequently characterized by high turnover and unreliability.

Giving customers more immediate information improves the consumer experience and can save a company time and money. That is why mobile technology is an important part of the retail business landscape.

Did You Know?

In addition to seamlessly processing payments, upgrading your POS system can provide you with in-depth inventory tracking and extensive operations-reporting capabilities.

Allowing sales to be processed anywhere

Upgrading your POS technology can help improve your customers’ shopping experience with lower upfront costs. Mobile POS systems use a smartphone or tablet instead of a cash register, allowing you to accept credit cards, digital wallets (such as Apple Pay, Google Pay and Samsung Pay) and contactless payments wherever you are. Upgrading to the latest software can also help protect customers’ personally identifiable information (PII).

خوبصورت پری کی کہانی

ی

تعارف

یہ خوبصورت اور ماجیکل کہانی بچوں کے لئے تحریر کی گئی ہے، جس میں ایک حیرت انگیز اور دلکش پری کی زندگی کا سفر بیان کیا گیا ہے۔ اس کہانی میں ہمیں اس پری کی شاندار دنیا کی سیر کرنے کا موقع ملے گا، جو خوابوں کی طرح خوبصورت اور دلکش ہے۔ مرکزی کردار، ایک خوبصورت پری، اپنے جادوئی اور تصوراتی دنیا میں رہتی ہے، جہاں ہر لمحہ ایک نئے ماجیکل واقعہ کا آغاز ہوتا ہے۔
خوبصورت پری اپنے دل موہ لینے والے لمبے سنہری بالوں، صاف ستھرے پروں اور چمکدار شخصیت کی وجہ سے جانی جاتی ہے۔ اس کی دنیا رنگین پھولوں، بلند و بالا درختوں، اور جادوئی سانپوں سے بھری ہوئی ہے۔ یہ رنگین دنیا نہ صرف بچوں کی تصوراتی دنیا کو حقیقت کا رنگ دیتی ہے بلکہ ان کے دلوں میں خوابوں اور خیالات کی ایک نئی دنیا بھی بساتا ہے۔
پری کی دنیا میں ہر ایک شے کا اپنا جادو ہوتا ہے۔ وہ قدرتی قوتوں کا استعمال کرتی ہے تاکہ اپنی جادوئی دنیا کو محفوظ رکھ سکے اور کسی بھی ناخوشگوار واقعہ کا مقابلہ کرسکے۔ اس کی اعلیٰ محبت اور قربانی کی کالے پراسرار قوتوں سے نبردآزما ہونے کی داستان اس کہانی میں نمایاں مقام رکھتی ہے۔
اس تعارف کے ذریعے، بچوں کو نہ صرف خوبصورت پری کی ماجیکل دنیا کا ایک جھلک ملے گا بلکہ وہ اس کی شاندار زندگی کے دلچسپ حقائق اور واقعات سے بھی واقف ہو جائیں گے۔ کہانی کا یہ ابتدائی حصہ بچوں کے لئے ایک ایسا ما قبل ہے جو ان کے دل کو چھو جانے والی جمالیاتی تجر بات فراہم کرتا ہے، اور ان کو اس جادوئی سفر میں آکر میر کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔

پری کی مشکلات اور چیلنجز

خوبصورت پری کی کہانی میں مشکلات اور چیلنجز کا ایک اہم مقام ہے کیونکہ یہی مواقع اس کے کردار کی گہرائی اور طاقت کو سامنے لاتے ہیں۔ پری کو عموماً جنگل کے دوسرے کرداروں کے ساتھ تعلقات بنانے اور برقرار رکھنے میں مشکلات کا سامنا پڑتا ہے۔ کچھ کردار اس کی مدد اور دوست بننے کی کوشش کرتے ہیں، جبکہ کچھ بری پریوں کی مخالفت کرتے ہیں۔ یہ ہر کہانی کا ایک عام حصہ ہوتا ہے جہاں دو مختلف فریقین کے درمیان اختلافات کی وجہ سے دلچسپ تنازعات پیدا ہوتے ہیں۔
بری پریوں کی مخالفت خوبصورت پری کے لئے بہت بڑا چیلنج بن جاتی ہے۔ وہ ہر ممکن کوشش کرتی ہیں کہ خوبصورت پری کے منصوبے ناکام ہوں اور جنگل میں بدامنی پھیلے۔ یہ مشکلات خوبصورت پری کی چپکے چپکے سے کام کرنے اور عقل مندی کا امتحان ہوتی ہیں۔ لیکن خوبصورت پری کبھی ہار نہیں مانتی اور اتحاد اور دوستی کی مدد سے اپنی مشکلات کا مقابلہ کرتی ہے۔
پریوں کی دنیا کو محفوظ رکھنا بھی خوبصورت پری کا ایک اہم فریضہ ہے۔ مختلف خطرات ، چاہے وہ قدرتی ہوں یا تخریبی، اس کی ذمہ داری میں شامل ہوتے ہیں جن کے خلاف اسے چوکسی برتنا پڑتی ہے۔ ایسے چیلنجز میں اس کے مخلص دوست اور جنگل کے دیگر کردار اس کی بھرپور حمایت کرتے ہیں۔ خوبصورت پری کی عقلی صلاحتیاں اور دل کی اور دوستی کی طاقت اسے ان تمام مسائل سے نمٹنے میں مدد فراہم کرتی ہے۔
خوبصورت پری کی یہ کہانی بچوں کو سکھاتی ہے کہ مشکلات چاہے جتنی بڑی ہوں، دوستوں اور حکمت سے نہ صرف ان کا سامنا کیا جا سکتا ہے بلکہ ان پر فتح بھی پائی جا سکتی ہے۔ یہی خاصیت اسے ایک مثال بناتی ہے جو بچوں کو امید، دوستی اور عقل مندی کی اہمیت بتاتی ہے۔

پری کی دوستیاں اور تعلقات

خوبصورت پری کی کہانی میں اس کی دوستیاں اور تعلقات ایک اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ جنگل میں دیگر کرداروں کے ساتھ اس کے تعلقات نہ صرف بچوں کو محظوظ کرتے ہیں بلکہ ان میں دوستی، محبت، اور تعلقات کی اہمیت بھی اجاگر کرتے ہیں۔ خوبصورت پری کا سب سے قریبی دوست ایک پیارا ہرن ہے جو اس کے ہمراہ جنگل کی سیر کرتا ہے اور اپنے معصوم چہرے اور محبت بھرے اعمال سے سب کے دل جیتتا ہے۔ پری اور ہرن کی دوستی ایک مثال بن جاتی ہے کہ کیسے مختلف موجودات میں ہم آہنگی اور محبت قائم ہو سکتی ہے۔
اس کے علاوہ، خوبصورت پری کی دیگر پریوں کے ساتھ بھی مضبوط دوستی ہے۔ یہ دوستیاں مختلف مواقع پر ایک دوسرے کی مدد کرنے پر مبنی ہیں، جیسے کہ اگر کسی پری کو مشکل کا سامنا ہو تو دوسری پریاں فوراً مدد کو پہنچتی ہیں۔ اس کے ذریعے بچوں کو اشتراکیت اور مدد کی اہمیت سکھائی جاتی ہے۔
دوسری طرف، انسانوں کے ساتھ پری کی کہانی بھی دلچسپی سے بھرپور ہے۔ خوبصورت پری کبھی کبھی انسانوں کے بستیوں کا دورہ کرتی ہے اور ان کے ساتھ دوستی کے پل بناڈالتی ہے۔ وہ انسانوں کے ساتھ اپنے تجربات اور کہانیاں شیئر کرتی ہے، جو انہیں قدرت کی خوبصورتی اور اس کی حفاظت کی اہمیت کو سمجھانے میں مدد دیتی ہیں۔
خوبصورت پری کی کہانی میں کشمیر کے پہاڑوں اور جنگلات کی خوبصورتی کو بھی خوبصورت طریقے سے پیش کیا گیا ہے۔ اس میں بچوں کو اس بات کا احساس دلایا جاتا ہے کہ قدرت کی حفاظت اور اس سے محبت کرنا کتنا ضروری ہے۔ مختلف کرداروں کے درمیان بننے والے یہ تعلقات ایک سماجی پیغام بن کر ابھرتے ہیں جو بچوں کو فطرت سے محبت کرنا سکھاتے ہیں۔

کہانی کا اختتام اور سبق

خوبصورت پری کی کہانی آخری موڑ پر پہنچی۔ جس وقت جنگل کی خوبصورتیاں اور پریشانیوں نے باہم دست و گریباں ہو کر خوبصورت پری کا سامنا کیا، اس نے اپنے عزم و ہمت اور نیک نیتی سے ساری مشکلات پر قابو پایا۔ بالآخر، خوبصورت پری نے نہ صرف اپنی مشکلات کو حل کیا بلکہ جنگل کو بری پریوں کے شر سے بھی آزاد کرا لیا۔ جب کہانی کا اختتام ہوا، خوبصورت پری کی نیک نیتی، دوستی کی قدر، اور انتھک محنت کی بدولت پوری قوم نے اسے ہیرو تسلیم کر لیا۔
یہ کہانی نہ صرف خوشی کے ساتھ ختم ہوئی بلکہ اس میں بچوں کے لئے بے شمار اخلاقی اسباق تھے۔ پہلی سبق جو بچے اس کہانی سے سیکھ سکتے ہیں وہ ہے دوستی کی قدر۔ خوبصورت پری نے اپنی دوستوں کی مدد کی اور ان کے ساتھ رہ کر تمام مشکلات کا مقابلہ کیا۔ دوستی کی قدر کو جاننا انسانی زندگی میں ایک اہم پہلو ہے جس سے زندگی خوبصورتی اور محبت سے بھر جاتی ہے۔
سچائی اور دیانتداری کی بھی ایک اہمیت ہے۔ خوبصورت پری نے کبھی جھوٹ کا سہارا نہیں لیا اور ہر لمحہ سچائی کے ساتھ حالات کا سامنا کیا۔ اس کے نتیجے میں، بچوں کو یہ سکھایا جاتا ہے کہ سچائی اور دیانتداری کا راستہ ہمیشہ فائدہ مند رہتا ہے، چاہے عارضی مشکلات کیوں نہ ہوں۔
ایک اور سبق بچوں کے لئے یہ ہے کہ ہمیں ہمیشہ دوسروں کی مدد کرنی چاہئے۔ خوبصورت پری نے نہ صرف اپنی مدد کی بلکہ اپنے جنگل کے تمام مکینوں کی بھی مدد کی۔ یہ بات سکھاتی ہے کہ ایک دوسرے کی مدد کرنے سے نہ صرف دوسروں کی زندگی میں بہتری آتی ہے بلکہ ہماری زندگی میں بھی سکون اور خوشی کا اضافہ ہوتا ہے۔
یاد رہے کہ خوبصورت پری کی کہانی نہ صرف ایک دلچسپ کہانی ہے بلکہ ایک اخلاقی درس گاہ بھی ہے جہاں سے بچے نیک عادات اور اچھی اقدار سیکھ سکتے ہیں۔

ہنسیں اور خوش رہیں: 15 مزیدار بلاگس


تعارف

خوشی اور ہنسی ہماری زندگی میں ایک اہم مقام رکھتے ہیں۔ یہ ہماری ذہنی اور جسمانی صحت کے لیے بے حد ضروری ہیں۔ ہنسنے سے نہ صرف ہمارے موڈ میں بہتری آتی ہے بلکہ یہ تناؤ کو بھی کم کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔ ہنسنا ایک قدرتی عمل ہے جو دماغ میں اینڈورفینز، یعنی خوشی کے ہارمونز، کی پیداوار کو بڑھاتا ہے اور ہماری زندگی کو مزید پرسکون اور خوشگوار بناتا ہے۔
یہ بلاگ بالکل اسی موضوع پر مبنی ہے اور آپ کے لیے ۱۵ ایسے دلچسپ بلاگس کے بارے میں بتاتا ہے جو آپ کو ہنسنے اور زندگی کے ہر لمحے کو بھرپور طریقے سے جینے کی تحریک دیں گے۔ تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ ہنسنے سے خون کی روانی بہتر ہوتی ہے، دل کی بیماریوں کا خطرہ کم ہوتا ہے اور ہماری مجموعی صحت میں اضافہ ہوتا ہے۔ لہذا، زندگی میں ہنسنا درست صحت کے لیے بھی بہترین تصور کیا جاتا ہے۔
یہ بلاگس نہ صرف آپ کے لیے تفریح کا ذریعہ ہوں گی بلکہ آپ کو زندگی میں چھوٹے چھوٹے لمحوں کی قدر کرنے کی بھی ترغیب دیں گی۔ آپ کو معلوم ہوگا کہ کیسے معمولی باتوں میں خوشی کی جھلک چھپی ہوتی ہے اور انہیں انجوائے کرنے سے ہماری زندگی میں معنی اور خوشی بھر جاتی ہے۔ روزمرہ کے تناؤ اور دباؤ سے نکلنے کے لیے یہ بلاگس آپ کی زندگی کے قیمتی ہتھکنڈے بن سکتے ہیں۔
چاہے آپ کسی مشکل میں ہوں یا بس کسی تفریح کی ضرورت ہو، یہ بلاگس آپ کے لیے روح کی غذا ثابت ہوں گے۔ اسی لیے ہم آپ کو مدعو کرتے ہیں کہ ان بلاگس کو پڑھیں اور زندگی کی خوبصورتیوں سے لطف اندوز ہوں۔

مزاحیہ بلاگس کی اہمیت

آج کے تیز رفتار زندگی اور بڑھتی ہوئی ذمہ داریوں کے دور میں، ذہنی سکون اور خوشی کی تلاش کسی بھی انسان کے لئے اہمیت رکھتی ہے۔ مزاحیہ بلاگس اس حوالے سے ایک قیمتی ذریعہ ثابت ہو سکتے ہیں۔ یہ بلاگس نہ صرف ہمیں ہنسنے پر مجبور کرتے ہیں بلکہ ہماری ذہنی صحت کے لئے بھی بہت فائدہ مند ہیں۔ مزاحیہ مواد سے بھرا ہوا بلاگ نہ صرف پریشانیوں اور دباؤ کو کم کرتا ہے بلکہ ہمارے دماغ کو بھی ایک نعمت کی طرح سکون فراہم کرتا ہے۔
دن بھر کی مشکلات اور ذمہ داریوں کے بعد ایک مزاحیہ بلاگ پڑھنا آپ کے موڈ کو تبدیل کر سکتا ہے۔ سائنس نے بھی ثابت کیا ہے کہ ہنسنے کا عمل دماغ میں اینڈورفنز کی پیداوار کو بڑھاتا ہے جو خوشی کا احساس پیدا کرتے ہیں اور درد کو کم کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ، دماغ کی تھکاوٹ کو دور کرنے اور ذہنی تروتازگی لانے میں بھی مزاحیہ بلاگس اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
مزاحیہ بلاگس دباؤ کو کم کرنے میں بھی مدددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔ جب ہم کسی مزاحیہ صورتحال کو پڑھتے ہیں یا دیکھتے ہیں، تو ہماری توجہ روزمرہ کی پریشانیوں سے ہٹ کر اس مزاحیہ مواد پر مرکوز ہو جاتی ہے۔ یہ توجہ کی تبدیلی ہمارے ذہن کو آرام دےتی ہے اور ہمیں نئی توانائی بخشتا ہے۔
ایک اور فائدہ یہ ہے کہ مزاحیہ بلاگس ہمیں مثبت سوچنے کی عادت ڈالنے میں بھی مدد دیتے ہیں۔ جب ہم خود کو ہنسی میں مشغول کر لیتے ہیں تو دنیا کے مسائل کم اہم محسوس ہوتے ہیں۔ اس طرح، ہمارے نظریے میں مثبت تبدیلی آ سکتی ہے، جو ہماری عمومی ذہنی صحت کے لئے بہترین ہے۔
آخر میں، مزاحیہ بلاگس ایک معاشرتی رابطے کا ذریعہ بھی ہیں۔ جب ہم کسی مزاحیہ مضمون کا اشتراک کرتے ہیں، تو یہ ایک پل کا کام کرتا ہے جو دوستوں اور خاندان والوں کو قریب لاتا ہے۔ یوں، ہنسی واقعی بہترین دوا ثابت ہوتی ہے، چاہے وہ کسی بلاگ کے ذریعہ ہو یا کسی اور ذریعے سے۔

15 مزیدار بلاگس کا تعارف

مزاح اور خوشی کی تلاش میں مزیدار بلاگس سے بہتر کوئی ذریعہ نہیں۔ ان بلاگس کو پڑھ کر قارئین کے چہروں پر مسکراہٹ بکھیرتے ہیں اور ان کی روزمرہ کی زندگی کو مزید دلچسپ بنا دیتے ہیں۔ یہ 15 بلاگس اپنے منفرد مزاحیہ انداز اور دلچسپ مواد کے ساتھ قارئین کو محظوظ کرتے ہیں۔
سب سے پہلے، “زندگی کی قیمتی لمحات” نامی بلاگ کا ذکر کرنا ضروری ہے۔ یہ بلاگ روزمرہ کے واقعات اور مشاہدات کو انتہائی مزاحیہ انداز میں پیش کرتا ہے۔ بلاگ کا مصنف اپنے دلچسپ قصے اور غیر متوقع موڑ کی وجہ سے قارئین کو ہنساتا رہتا ہے۔
اگلا ہے “ہنسی کے رنگ”۔ یہ بلاگ ہندوستانی معاشرتی منظرنامے پر مبنی طنزیہ تحریروں کے ساتھ ساتھ شریر مزاح بھی پیش کرتا ہے۔ بلاگ کا مصنف اپنے تجربات اور مشاہدات کو دلچسپ کہانیوں میں بدل دیتا ہے جو قارئین کو مسکرانے پر مجبور کر دیتی ہیں۔
“مسکراہٹوں کا جہاں” نامی بلاگ منفرد دلچسپ مواد کی بدولت بہت مشہور ہے۔ بلاگر اپنی ذاتی تجربات اور مشاہدات کو ہلکے پھلکے طنز کے ساتھ پیش کرتا ہے، جس سے قارئین کو نہ صرف ہنسی آتی ہے بلکہ وہ اپنی زندگی کے بارے میں بھی سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
ایک اور دلچسپ بلاگ “ہنسنا منع ہے” ہے، جو قارئین کو روزمرہ کے مسائل کو ہلکے پھلکے اور مزاحیہ انداز میں پیش کرتا ہے۔ ان کی تحریریں نہ صرف مزاحیہ ہوتی ہیں بلکہ معاشرتی مسائل پر بھی گہرا طنز کرتی ہیں۔
مزید برآں، “مزاح کی جنگ” نامی بلاگ سیاسی موضوعات پر مبنی مزاحیہ تحریریں پیش کرتا ہے۔ بلاگر کی تیز زبان اور بامزاح تحریریں قارئین کے درمیان مقبول ہیں۔
یہ 15 مزیدار بلاگس قارئین کے لیے نہ صرف تفریح کا ذریعہ ہیں بلکہ زندگی کی چکا چوند میں راحت کا لمحہ بھی فراہم کرتے ہیں۔ ان بلاگس کو پڑھ کر نہ صرف آپ ہنسیں گے بلکہ مثبت سوچ کو بھی فروغ ملے گا۔

اختتامیہ: ہنسی کی اہمیت

ہنسی ہمیشہ سے انسانی زندگی کا لازمی حصہ رہی ہے، اور اس نے معاشرتی اور نفسیاتی تندرستی کے لئے بے حساب فوائد فراہم کیے ہیں۔ مزاحیہ بلاگز نہ صرف ایک دلچسپ اور دلکش مواد فراہم کرتے ہیں بلکہ آپ کی روزمرہ کی زندگی کی یکسانیت کو توڑ کر خوشیوں کے لمحات کو بڑھا دیتے ہیں۔ علمی تحقیق سے بھی ثابت ہوا ہے کہ ہنسنے سے دماغ میں اینڈورفنز کی مانند خوشی کے کیمیکلز کی پیداوار بڑھتی ہے، جو تناؤ اور افسردگی کو کم کرنے میں مدد دیتے ہیں۔
ہم میں سے ہر ایک اپنی زندگی میں مختلف چیلنجز کا سامنا کرتا ہے، اور ہنسی ان چیلنجز کا سامنا کرنے میں ایک نہایت مؤثر ذریعہ ثابت ہو سکتی ہے۔ کسی مضحکہ خیز مضمون یا ویڈیو کا مطالعہ یا مشاہدہ کرنا ہمیں لمحاتی خوشی دے سکتا ہے، اور یہ خوشی جذباتی توازن کو بحال کرنے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔ جب ہم ہنسنے کا انتخاب کرتے ہیں، تو ہم اپنی زندگی میں مثبت تبدیلیاں لا سکتے ہیں اور اپنی خوشی کے امکانات کو بڑھا سکتے ہیں۔
اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے، ہم آپ کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں کہ آپ ان مزاحیہ بلاگز کو اپنے معمول کا حصہ بنائیں۔ ان بلاگس کے ذریعے نہ صرف آپ کو تفریح ملے گی، بلکہ آپ کے ذہنی اور جسمانی صحت پر بھی مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ باقاعدہ طور پر ہنسنا اور مزاحیہ مواد کا حصہ بننا آپ کی زندگی کو خوشگوار اور توانا بنا سکتا ہے۔
آخر میں، ہم یہی کہنا چاہیں گے کہ زندگی میں خوشی کے لمحات ڈھونڈنا اور ان کا تجربہ کرنا اہم ہے۔ اس بلاگ کے ذریعے، ہنسی کو اپنی زندگی میں شامل کریں اور روزمرہ کی یکسانیت سے نجات حاصل کریں۔ خوشیوں سے بھرپور زندگی کے لئے، ہنسی کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں اور خوشگوار لمحات سے لطف اندوز ہوں۔

Can You Spot the Mistake in the Girls’ Dining Room Picture?

Welcome to this exciting challenge! Take a moment to carefully examine the image of the girls’ dining room. Something is not quite right, but it’s cleverly hidden. Are you up for the task of finding the mistake before the timer runs out? Let’s give it a go!

At first glance, the picture may seem perfect with the girls bustling around the dining table. But don’t let these distractions fool you. Amidst the girl placing a bottle on the table, the delicious turkey being served, and another girl admiring herself in the mirror, lies an elusive mistake waiting to be discovered.

But fear not! With a keen eye and a sharp mind, you can spot this hidden anomaly. Take your time, focus, and challenge yourself to find the elusive mistake before the clock counts down to zero.

Did you manage to uncover it? If not, don’t worry. We’ve got some helpful hints for you. Sometimes, reality can be deceiving, and our perception of what’s real and what’s not can play tricks on us.

Upon closer inspection, you may notice that the reflection in the mirror is on the wrong side. It’s an intriguing detail that challenges our understanding of the world around us. Isn’t it fascinating how the tiniest anomaly can change the entire picture?

Congratulations if you were able to spot the mistake! Your sharp eyes and attention to detail have proven you to be a true wizard of puzzle-solving. We’re in awe of your lightning-fast thinking and unwavering focus.

Now, why not challenge your friends to solve this brain teaser too? See how quickly they can find the mistake in the picture. Share your results in the comments below and compare them with other puzzle masters. It’s a fun way to engage your brain and spread the excitement of solving quizzes.

Remember, in the world of puzzles, nothing is as it seems. So keep those eyes peeled and stay ready for the next challenge that comes your way!

Maggie McGraw – the middle daughter of Faith Hill and Tim McGraw is now all grown up

Faith Hill is one of country music’s most beloved stars and a personal favorite of mine.

I love her unique voice and her emotional songs – but Hill is remarkable for yet another reason: she truly values family life.

Her long-time marriage to Tim McGraw proves that Faith has her heart in the right place and values the same things I do. The couple met in 1994 and have been married for 29 years now.

Together, the proud parents have raised three beautiful girls, Gracie Katherine, 25, Maggie Elizabeth, 24, and Audrey Caroline, 21.

The girls have all inherited their parents’ musical talents and are all strikingly similar to their mother if you ask me.

This was recently brought to the world’s attention when Maggie McGraw turned 24 and her father posted a picture of his daughter on social media.

Of course, many took the opportunity to congratulate Maggie when Tim posted the following message on her birthday:

“Your mom, sisters and I are so very proud of you. Your drive, work ethic and enthusiastic determination to make the world a better place inspires me every single day……. I love you Mags-a-Million!!!! ”Tim

wMany of the country star’s 3.3 million followers noticed that Maggie looks more and more like her famous mother with each passing year.

Their beautiful smiles are almost identical!

Faith sometimes posts photos of her middle daughter as well. When Maggie turned 222, she shared two photos on Instagram and a loving birthday message.

“Happy Birthday to our Maggie !!!!!! 22 years old today. “A throwback photo from our cross country road trip 4 years ago. I love you my sweet,” she wrote.

What a wonderful bond this mom and daughter clearly share!

Faith Hill obviously has a close and strong relationship with all her daughters – but it is clear that it’s evolving as her little girls are now growing up to be strong, independent women.

”As a parent, you do not want to stand in the way of their dreams,” Faith Hill told AOL a few years ago.

”You want to protect them; you want to make sure they aren’t disappointed … Sometimes, it’s better to let your children go through things on their own and let them experience it instead of saying, ‘Don’t do it this way, or you must do it this way.’”

Maggie McGraw, a copy of her mom?
Maggie, 24, not only seems to have inherited her mother’s looks and smile – she also loves to perform on stage.

Maggie serves as a lead singer in her rock band ”Sister Supply” and the band has played at some university festivals around California.

According to Countryfancast, the 24-year-old also has a very adventurous personality – she loves activities such as sky diving, cliff jumping and swimming with sharks.

Maggie graduated with her undergraduate degree from Stanford University in California in 2020.

Now she’s headed back to Stanford to work on her master’s degree in sustainability science.

During the COVID-crisis, Maggie helped out with charity work in Nashville through the Feed The Front Line Live, a virtual benefit concert raising money to help local restaurants, people in need and front line workers.

Maggie was named vice president of the charitable organization’s chapter in Nashville and put her whole heart into the project.

“I think I grew up with a mentality that it’s kind of an obligation for you if you have more than other people, to give back,” Maggie, 21, told Us Weekly.

It is obvious that Maggie’s parents have inspired and passed on good values ​​to their daughter. According to Maggie, her parents were the first people she told about her involvement in Feed The Front Line Live.

“It’s always been instilled in my conscience, but I think this is probably the first time I’ve truly acted on it, like independently outside from, like, high school and volunteering.”

It will be very exciting to follow Maggie and her sisters through their lives.

I’m sure they will succeed in whatever they set out to do and I hope they will stay happy and healthy. They are blessed to have two fantastic and caring parents and it’s clear that they have received the right values and attitude towards life.

What do you think? Is Maggie like her mother? Or maybe her dad? Feel free to share this article on social media!rote.

Queen Elizabeth’s friend reveals sad details of the late monarch’s final days

Queen Elizabeth’s death left the entire world in mourning. Though not everyone considers themselves pro-monarchy, the late Queen was beloved by most. She reigned for over 70 years, and has now finally reunited with her husband, Prince Philip.

Shortly after the Queen’s death at Balmoral, speculation regarding the cause of her death began to spread. One insider even claimed that the late Queen had bone cancer, though that has not been confirmed by Buckingham Palace. 

Speaking with The Daily Beast, a close friend of Queen Elizabeth’s has now revealed fresh details about her last days.

After reigning for over 70 years, Queen Elizabeth died on September 8, 2022 aged 96.

After the State Funeral at Westminster Abbey, Queen Elizabeth’s coffin traveled through the streets of London to Wellington Arch in Procession.

Queen Elizabeth

From Wellington Arch, the coffin went to Windsor. Once there, the hearse continued in Procession to St. George’s Chapel, Windsor Castle, via the Long Walk. At St. George’s Chapel, another funeral service was held.

The Choir of St George’s Chapel sang during the St George’s Chapel funeral service. Then, before the “final Hymn,” Queen Elizabeth’s imperial state crown, the Orb, and the Sceptre were removed from her coffin and placed on the altar. 

Next, King Charles put his mother’s Company Camp Colour of the Grenadier Guards on her casket, before The Lord Chamberlain broke his Wand of Office and placed it down.


The guests sang God Save The King as Her Majesty’s coffin was lowered into the Royal Vault. Charles became visibly emotional, fighting back the tears. Later on Monday evening, a small, private burial service was held without cameras, attending only by the closest family members.

The Queen now rests in the King George VI Memorial Chapel at Windsor Castle, alongside her parents, her sister Princess Margaret, and her husband, Phillip.

Queen Elizabeth, coffin

After his passing, Philip’s coffin was placed in the royal vault below St. George’s Chapel. He was later relocated to be reunited with Elizabeth at the King George VI Memorial Chapel, where, some weeks after the funeral, people were once again invited to pay their respects.

Queen Elizabeth died of “old age”

As reported by AP, Queen Elizabeth’s funeral and lying-in-state cost Britain’s government an estimated $200 million. The funeral was the first state funeral in the UK since former Prime Minister Winston Churchill’s in 1965.

Before the funeral, hundreds of thousands of people visited London’s Westminster Hall to see Queen Elizabeth lying in state and pay their respects.

The costs were published as part of a written statement to Parliament.

“The government’s priorities were that these events ran smoothly and with the appropriate level of dignity, while at all times ensuring the safety and security of the public,” John Glen, chief secretary to the treasury, said in a statement.

For weeks after the funeral, circumstances surrounding Queen Elizabeth’s cause of death were kept a secret. The Daily Mail reported that a Scottish government department had been accused of being secretive and blocking legitimate attempts to obtain a copy of Her Majesty’s death certificate – this despite the fact many believed it should be a matter of public record.

“Despite MailOnline and other media outlets attempting to obtain the information from the National Records of Scotland (NRS), the public body has blocked its staff from providing any details relating to the Queen’s death on September 8,” the Daily Mail wrote.

In late September, the registered cause of death was released. Queen Elizabeth’s cause of death was listed as “old age,” with no further details added.

Queen Elizabeth

The National Records of Scotland’s Chief Executive, Paul Lowe, confirmed that her passing was registered in Aberdeenshire on September 16.

Harry and William didn’t make it in time

The document – signed by the Queen’s daughter, Princess Anne – states that Her Majesty passed away at 3.10 P.M. on September 8 at Balmoral Castle. Buckingham Palace announced Queen Elizabeth’s passing around three hours after she died.

King Charles and Camilla were at the Queen’s side when she passed. Unfortunately, none of Prince William, Kate Middleton, or Prince Harry made it to Balmoral to say their goodbyes in time before she died.

In an interview with 60 Minutes, Harry gave details about the tumultuous hours surrounding his grandmother’s passing. He claimed that he reached out to his brother William regarding traveling plans for Balmoral – but was not invited.

“I asked my brother — I said, ‘What are your plans? How are you and Kate getting up there?’ And then, a couple of hours later, you know, all of the family members that live within the Windsor and Ascot area were jumping on a plane together,” Harry told Anderson Cooper on 60 Minutes.

Most of the flight to the Scottish estate, where he’d spend many Christmases and other holidays, he thought about the last moments he had spoken to his beloved grandmother.

Prince Harry, Meghan

Harry, via the BBC website, discovered that the Queen had passed away as he landed. Upon arrival at Balmoral, Princess Anne was the one who welcomed him.

“I walked into the hall and [Princess Anne] was there to greet me,” Harry told 60 Minutes. “And she asked me if I wanted to see her. I thought about it for about five seconds, thinking, ‘Is this a good idea?’ And I was, like, ‘You know what? You can do this. You need to say goodbye.’ So went upstairs, took my jacket off and walked in and just spent some time with her alone.”

Royal insider claimed Queen Elizabeth suffered from bone cancer

Harry continued: “She was in her bedroom. [She] was actually — I was really happy for her. Because she’d finished life. She’d completed life, and her husband [Prince Philip] was waiting for her. And the two of them are buried together.”

In his memoir, Harry wrote more about getting to say his last goodbyes to the Queen.

“I stayed in one place without moving, gazing at her for a long time, gathered strength and continued going forward,” Harry recalled in his book, adding that he whispered a very precious thing to her.

“I hoped she was happy and that she was with grandpa,” he whispered to the Queen, telling her how he “admired her for having carried out her functions to the end… the Jubilee, welcoming the new Prime Minister.”

Queen Elizabeth’s official cause of death is documented as old age, though as mentioned, one expert previously claimed that she had been suffering from bone cancer. In a serialization in the Daily Mail, royal author Gyles Brandreth wrote that the fact that she had myeloma – bone marrow cancer – explained the “tiredness and weight loss and those ‘mobility issues’ we were often told about during the last year or so of her life.”

He continued: “The most common symptom of myeloma is bone pain, especially in the pelvis and lower back, and multiple myeloma is a disease that often affects the elderly. Currently, there is no known cure, but treatment — including medicines to help regulate the immune system and drugs that help prevent the weakening of the bones — can reduce the severity of its symptoms and extend the patient’s survival by months or two to three years.”

Queen Elizabeth

Bone cancer can cause severe chronic pain and hinder a person from moving around, which fits Bradreth’s claims about the Queen having “episodic mobility problems.”

“No one could see she was having to use a wheelchair”

According to Express sources, the Queen withdrew from more public events in her final year because of mobility issues and increased pain.

The Daily Beast reported that although the Queen was never photographed using a wheelchair, she used one to get around in private.

According to royal expert and author Robert Joobson, the Platinum Jubilee planning at Buckingham Palace was extraordinary.

“On her insistence, a military-style exercise was put in place so that no one could see she was having to use a wheelchair,” Jobson wrote. “In considerable discomfort, Her Majesty was taken by wheelchair to the helicopter pad at Windsor.”

“At the Palace, she was wheeled right up to the balcony doors, then helped to her feet so that she could stand – with the aid of a walking stick – alongside Charles and Camilla, plus William and his family.”

“After a firework display, the Queen smiled with delight. It was her last salute to her people,” he concluded.

Palace aides were said to have been instructed not to let anyone see the Queen in a wheelchair, most notably because the Queen remembered a “haunting image” of her sister, Princess Margaret, in a wheelchair taken just months before her passing.

Queen Elizabeth was “easily confused” and had a hard time to see in her final days

However, a friend of Queen Elizabeth has now decided to speak out about the late monarch’s final years, revealing that she was in “a lot of pain.”

Moreover, the source revealed that the Queen’s sight and hearing had deteriorated considerably in the weeks leading to her death.

Although Queen Elizabeth appointed Liz Truss as Prime Minister just days before her death, a friend concludes that the monarch also had difficulty concentrating for an extended period and “was easily confused.”

“For the last years of her life, certainly from when her husband died [in April 2021], the Queen was in a lot of pain,” the source close to the late Queen’s explained:

“In the final months, of course, it got very much worse; by the time of the Platinum Jubilee, she couldn’t see very much, she couldn’t hear very much, and she was easily confused,” the friend of Queen Elizabeth added.

“She barely moved from her apartments in Windsor Castle. Appearing on the balcony at Windsor Castle for the Jubilee required a titanic effort.”

اُس کی یادوں سے ہمیشہ واسطہ میں نے رکھا، کچھ نہ کچھ تو رابطے کا سلسلہ میں نے رکھا

لفظوں کا آغاز: ایک ملاقات کی داستاں


کہانی کی شروعات ایک خوبصورت ملاقات سے ہوتی ہے جب محمد اور سارہ پہلی بار ملتے ہیں۔ یہ ملاقات ان کے دلوں میں ایک ایسی چنگاری جلا دیتی ہے جو محبت کی پشت پر فوراً اپنا اثر چھوڑ دیتی ہے۔ محمد ایک معزول دوپہر کو ایک خوبصورت باغ میں ٹہل رہا ہوتا ہے، جہاں رنگین پھول اور تازہ ہوا اس کی روح کو سکون بخش رہے ہوتے ہیں۔ اچانک اس کی نظر ایک بینچ پر بیٹھے سارہ پر پڑتی ہے، جو اپنی کتاب میں مگن ہوتی ہے۔
محمد کی آنکھوں کو ایسا لگتا ہے جیسے اس نے کسی خوبصورتی کے پیکر کو دیکھا ہو۔ سارہ بے خبری کے عالم میں اپنی کتاب کے زخروف میں گم ہوتی ہے، جب اس کی نظر محمد سے ملتی ہے، اس کے دل کی دھڑکن تیز ہوجاتی ہے۔ پہلی ملاقات میں ہی ایک نامعلوم کشش دونوں کے بیچ پیدا ہوتی ہے۔
ان دونوں کی پہلی نظر ہی ان کے دلوں میں محبت کے بیج بو دیتی ہے۔ یہ لمحہ ایسا ہوتا ہے جو ان کی پوری زندگی کو محبت کے رنگوں سے بھر دیتا ہے۔ ملاقات کی جگہ، وہ باغ اور وہ لمحہ ہمیشہ ان کی یادوں میں بستے ہیں۔ محبت کا آغاز اس ملاقات سے ہوتا ہے اور ان دونوں کے دلوں میں محبت کے شعور کی روشنی بھر جاتی ہے۔

محمد اور سارہ کی ملاقات ایک اتفاقیہ ملاقات نہیں تھی، بلکہ اس میں کچھ خاص بعد ان کی محبت جوانی کے جوش و خروش کے ساتھ پروان چڑھنے لگی۔ دونوں نے جلد ہی محسوس کر لیا کہ ان کے درمیان جذبات کسی معمولی دوستی سے کہیں زیادہ ہیں۔ محمد نے اپنی محبت کا اظہار کرنے کے لیے سارہ کو خوشبو والے خطوط بھیجنے شروع کیے جن میں اس کے مکمل خلوص کی جھلک ہوتی۔ سارہ بھی اپنے جذبات کو قلم اور قرطاس کے ذریعے وضاحت کرنے میں پیچھے نہ رہی۔
ان کی بات چیت میں مخلصیت اور احترام کا غلبہ تھا۔ دونوں نے وقت کے ساتھ ایک دوسرے کے خاندانی پس منظر کو جاننے کی کوشش کی، تاکہ انہیں ایک دوسرے کی زندگی کے مختلف پہلوؤں کی مکمل سمجھ بوجھ حاصل ہو سکے۔ محمد نے سارہ کو اپنے خاندان کی تاریخ، رسم و رواج اور روایات کے بارے میں بتایا۔ سارہ بھی اپنے خاندان کی ثقافت اور رسم و رواج سے محمد کو روشناس کرانے میں پیچھے نہ رہی۔
ان کی ملاقاتیں بعض اہم وقعات میں تبدیل ہو گئیں۔ جب محمد کا امتحانوں کا موسم آتا، سارہ بارہا اس کی حوصلہ افزائی کرتی۔ اسی طرح جب کبھی سارہ کو اپنی تعلیم میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تو محمد اس کے حوصلے کو بلند کرتا۔ ان دنوں کی ملاقاتیں کبھی کبھار پارک میں چہل قدمی کے دوران ہوتی تو کبھی ادب اور شاعری کی محفلوں میں۔
یوں دونوں کے درمیان محبت کا یہ سلسلہ ایسے پروان چڑھتا گیا جیسے بڑھتے درخت کی شاخیں آسمان تک پہنچنے کی کوشش میں جڑوں سے مزید مضبوط ہوتی جاتی ہیں۔

رابطوں کا سفر: خط و کتابت کی داستانیں

وقت گزرتا گیا اور محمد اور سارہ کے بیچ خط و کتابت کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ ان خطوط کی کہانی دل کو چھو لینے والی ہے، جو ان دونوں کے جذبات اور محبت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ محمد کے خطوط میں وجدانی الفاظ اور سارہ کے جوابات میں اپنے جذبات کی راستگی اور دونوں کے درمیان محبت کی پیوند کاری کی جاودانی جھلک واضح ہوتی ہے۔ ان کے خط محبت بھرے الفاظ، غم و خوشی کے لمحات اور خوابوں کی داستانوں سے بھرپور ہوتے ہیں۔
محمد اپنی ہر بات کو نہایت ہی باریک بینی سے بیان کرتے، اس کی ہر سطر میں محبت، یادیں اور خوابوں کا دھنک ہوتا۔ وہ اپنے دن کی کہانیاں، مستقبل کے خواب اور اپنی محبت کو بیان کرنے کے لئے الفاظ کے زینے چڑھتا اور کاغذ پر سارہ کے لئے اپنی محبت کا اظہار کرتا۔ دوسری طرف، سارہ کی تحریریں بھی کم نہیں ہوتیں، وہ بھی اپنے دل کی باتیں پوری حلاوت کے ساتھ بیان کرتی۔
محمد اور سارہ کے درمیان خط و کتابت ایک خوبصورت ربط کا باعث بنی، جہاں وہ اپنے دل کی باتوں کو بیان کرکے اپنی محبت کے رشتے کو مزید مضبوط بناتے رہے۔ ان خطوط میں شامل محبت بھری باتیں نہ صرف ان کے درمیان رابطے کی ایک مضبوط کڑی تھیں بلکہ ان کے مستقبل کے خوابوں اور منصوبوں کی بھی عکاسی کرتی تھیں۔ یہ خطوط ان کے دلوں کی آواز، ان کی دعاؤں کا جواب اور ان کے دلوں کی داستان تھے۔
خطوط کی یہ کہانیاں ان کے درمیان حقیقت سے ماورا محبت کے رشتے کی مضبوطی اور ان کے دلوں کی قربت کو بیان کرتی ہیں۔ ان خطوط نے دونوں کے بیچ ایک اَن کہے وعدوں، خوابوں اور محبت کی داستانوں کی خوبصورت تصویر کشی کی، جو ان دونوں کے جذبات اور محبت کی عکاسی کرتی تھی۔ محمد اور سارہ کے درمیان خطوط نے نہ صرف ان کے فاصلے کو مٹایا بلکہ ان کے دلوں کے قریب ہونے کی راہ بھی ہموار کی۔

ملاقاتوں کی بجائے، یادیں ہی کافی ہیں

وقت گزرنے کے ساتھ، محمد اور سارہ کو اپنے تعلقات میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ حالات نے انہیں مجبور کر دیا کہ وہ جسمانی طور پر ایک دوسرے سے دور ہو جائیں۔ لیکن اگرچہ ملاقاتیں ممکن نہ تھیں، یادیں ہمیشہ ان کے بیچ کا پل بنیں۔ ماضی کی یادوں نے ان دونوں کے دلوں کو ہمیشہ جڑے رکھا، چاہے فاصلہ کچھ بھی ہو۔
محمد اکثر اپنے خیالات میں سارہ کے ساتھ گزارے ہوئے لمحات کو دھیان میں لاتا۔ ان کے مسکراتے چہرے، ہنستے اچھلتے وقت، اور ایک دوسرے کے ساتھ کی جانے والی باتیں ہمیشہ اس کے ذہن میں گونجتی رہتی تھیں۔ اس طرح، محمد نے اپنے آج کو اس محبت بھرے ماضی کے ذریعے مکمل کیا۔ وہ یادیں اس کے لیے روحانی غذا کی طرح تھیں، جو زندگی کی مشکلات کا سامنا کرنے کے لیے توانائی فراہم کرتی تھیں۔
دوسری جانب، سارہ بھی محمد کو یاد کرنے کے لیے اکثر خاموش گوشے ڈھونڈتی۔ اس کی یادیں، جیسے کسی خاص گانے کی دھن، جسے وہ دونوں پسند کرتے تھے، یا ان کے پسندیدہ فن پارے کا تصور، ہمیشہ اسے سچی ہم آہنگی میں رکھتا تھا۔ ان یادوں کے ذریعے، سارہ نے اپنے اندر کی اکیلی پن کو کم کرنے کی کوشش کی اور خود کو مضبوط بنایا۔ یادیں ان دونوں کے لیے سکون اور تسکین کا ذریعہ بن گئیں۔
زندگی کی مشکلات سے نمٹنے کا یہی طریقہ ان دونوں کے بیچ ایک گہری محبت کی علامت بن گیا۔ اس کے باوجود کہ وہ ملاقاتوں سے محروم تھے، انہوں نے یادوں کو زندگی کا اساسی حصہ بنایا۔ یہ یادیں ہی تھیں جو فاصلوں کے باوجود ان کے دلوں کو نزدیک لے آئیں اور ان کی محبت کی شدت کو قائم رکھا۔

وقت اور فاصلوں کا امتحان: محبت کی اصل آزمائش

محبت ایسی دولت ہے جس کا صحیح امتحان وقت اور فاصلے کے دوران ہی ہوتا ہے۔ وقت اور فاصلوں کی آزمائشیں حقیقی محبت کو ثابت کرنے کے مواقع فراہم کرتی ہیں۔ جب دو محبت کرنے والے ایک دوسرے سے دور ہوتے ہیں، تو ان کی محبت کی گہرائی اور مضبوطی کا اندازہ لگانے کا یہ بہترین وقت ہوتا ہے۔ ان حالات میں، ان کا آپس کا تعلق اور ایک دوسرے کے لیے احترام اور اعتماد بہت پرکھا جاتا ہے۔
وقت اور فاصلوں کے دوران محبت کو برقرار رکھنا بلاشبہ ایک کٹھن مرحلہ ثابت ہوتا ہے۔ دنوں، ہفتوں، مہینوں اور کبھی کبھار برسوں کی دوری دو دلوں کو ایک عجیب کیفیت میں مبتلا کر دیتی ہے۔ اس دوران، کچھ محبتیں پروان چڑھتی ہیں، جبکہ کچھ ختم ہو جاتی ہیں۔ وقت اور فاصلے کی ان رکاوٹوں کے باوجود، وہ جو اپنی محبت کو برقرار رکھنے کی کوشش کرتے ہیں، وہ اشارہ دیتے ہیں کہ ان کی محبت کتنی حقیقی اور اعتقادی ہے۔
مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے شاملین کی زندگی میں متعدد مشکلات پیش آتی ہیں جن کا حل ضروری ہے۔ مثال کے طور پر، غیر مذاقرت اور غلط فہمیاں محبت کو ختم کرنے کی سب سے بڑی وجوہات میں شامل ہیں۔ ان مشکلات کے باوجود، بعض لوگ اپنی محبت کو زندہ رکھنے کے لئے پرخلوص جدوجہد کرتے ہیں۔ جوڑوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ ایک دوسرے کے خیالات اور احساسات کو سمجھیں اور ایک دوسرے کے ساتھ صداقت اور لب و لہجہ سے پیش آئیں تاکہ ہر مشکل کا سامنا کرنے میں آسانی ہو۔
مزید برآں، جدید تکنولوجی نے وقت اور فاصلے کی مشکلات کو بہت حد تک کم کر دیا ہے۔ ویڈیو کالز، چیٹ ایپس اور سماجی میڈیا کی مدد سے محبت کرنے والے اپنی محبت کو مضبوط اور مستحکم بنا سکتے ہیں۔ یہ تکنولوجی انہیں براہ راست ربط فراہم کرتی ہے، جس سے فاصلے کی رکاوٹوں کو عبور کرنے میں مدد ملتی ہے۔ نفسیاتی اور جذباتی تعاون دینا اور ایک دوسرے کو مضبوطی سے تھامے رکھنا بھی ان کو مصیبتوں سے بچا سکتا ہے۔

رابطے کا سلسلہ: یادوں کا محبت بھرا امر

یادیں وہ قیمتی سرمایہ ہوتی ہیں جو ہماری زندگیوں میں محبت اور حوصلہ کا ایک نیا پہلو بن کر آتی ہیں۔ محمد اور سارہ کی زندگی میں یہ یادیں کچھ اسی طرح سے رابطے کا سلسلہ برقرار رکھتی ہیں۔ جب بھی زندگی کے اتار چڑھاوُ نے انہیں تنہا کرنے کی کوشش کی، یہ محبت بھری یادیں ان کے لیے حوصلہ اور اُمید کی کرن بن گئیں۔ یہ لمحے نہ صرف ماضی کی خوشیوں کو تازہ کرتے ہیں بلکہ مستقبل میں ایک نئی توانائی اور جوش بھی بھر دیتے ہیں۔
محمد اور سارہ کے تعلقات میں یادوں کی بہت اہمیت ہے۔ جب کبھی وہ دونوں جدا ہوتے ہیں یا زندگی کے مصروف شیڈول میں گم ہو جاتے ہیں، انہی یادوں کا سہارا لے کر وہ ایک دوسرے کے قریب آتے ہیں۔ ان یادوں کے ذریعے وہ ایک دوسرے سے جڑے ہوئے محسوس کرتے ہیں، چاہے ان کے درمیان کتنے بھی فاصلے کیوں نہ ہوں۔ کہیں محمد نے ان لمحوں کی یاد میں رکھے ہوئے تصویریں دیکھیں، تو کہیں سارہ نے محبت بھرے خطوط کو دوبارہ پڑھا۔ ان دونوں کی زندگی میں جب بھی کسی قسم کی مشکلات آئیں، یہی پیار بھری یادیں انہیں دوبارہ مضبوطی سے کھڑے ہونے کی ہمت دیتی ہیں۔
یادیں صرف ماضی کے وقتوں کا ذکر نہیں ہوتیں بلکہ یہ ایک مہمیز بھی ہوتی ہیں جو محمد اور سارہ کو روزمرہ کی مشکلات کو جیتنے کا حوصلہ فراہم کرتی ہیں۔ محبت کے ان چھوٹے چھوٹے لمحوں کی یادوں نے ان دونوں کے دلوں میں ایک خاص مقام بنا لیا ہے۔ یہ یادیں انہیں ہمیشہ یہ احساس دلاتی ہیں کہ وقت کی تبدیلیوں کے باوجود، ان کے دلوں میں وہ محبتی رابطے ہمیشہ قائم رہیں گے۔

پھر سے ملاپ: محبت کے سفر کا نیا آغاز

حالات کی پیچیدگیاں اور جدائیاں محبت کی کہانیوں میں اکثر مرکزی کردار ادا کرتی ہیں، مگر کچھ کہانیاں اپنی منفرد اہمیت رکھتی ہیں۔ محمد اور سارہ کی کہانی بھی انہی داستانوں کا حصہ ہے، جنہوں نے زندگی کے کئی نشیب و فراز دیکھے اور پھر ایک دوسرے کی راہ دوبارہ پائی۔ ان کے دوبارہ ملنے کا لمحہ صرف ایک ملاپ نہیں تھا، بلکہ محبت کے سفر کا ایک نیا آغاز تھا۔
محمد اور سارہ کے درمیان وقت اور فاصلوں کی دیواریں حائل ہو چکی تھیں، مگر جب قسمت نے انہیں دوبارہ ملا دیا، تو یہ ایک نئی امید کی کرن تھی۔ ان دونوں نے نہ صرف اپنی پرانی محبت کے جذبے کو دوبارہ زندہ کیا، بلکہ نئی مضبوطی اور خلوص کا عہد بھی کیا۔ محبت کی اس نئی ابتدا میں، انہوں نے اپنے اختلافات کو پچھاڑنے اور ایک دوسرے کے ساتھ وقت گزارنے کی اہمیت کو سمجھا۔ اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ تمام مشکلات خودبخود حل ہو گئیں، بلکہ دونوں نے بھرپور عزم کے ساتھ اپنی راہوں کو اس بار ایک ساتھ چلنے کا فیصلہ کیا۔
اس بار کا ملاپ صرف دوبارہ ملنے کا خوشگوار لمحہ نہیں تھا، بلکہ اس میں موجود مسائل کو سمجھنے اور ان پر قابو پانے کا عزم بھی شامل تھا۔ محبت کی کہانی کے اس نئے باب میں، محمد اور سارہ نے ایک دوسرے کی قدر و قیمت کو بہتر طریقے سے جانا اور انہیں احساس ہوا کہ محبت صرف خوشگوار لمحوں کا نام نہیں، بلکہ یہ مشکلات کے دوران بھی ساتھ رہنے کا عہد ہے۔ ان کے دلوں میں موجود محبت نے انہیں طاقت دی کہ وہ ہر مرور کی رکاوٹوں کا مل کر مقابلہ کریں۔
محمد اور سارہ کی اس کہانی میں، نئے ملاپ کا ہر لمحہ ان کے لئے ایک یادگار بن گیا، جہاں نہ صرف محبت کی خوشبو موجود تھی، بلکہ ایک دوسرے کے ساتھ سفر کرنے کا عہد بھی۔ ان کے لئے محبت کا یہ نیا آغاز زندگی کی نیا رنگ ظاہر کرتا ہے، جس میں موجود ہر لمحہ ان کے لئے ایک انمول تحفہ ہے۔

محبت کا انجام: خوشیوں بھرا زندگی کا سفر

کہانی کے اختتام پر محمد اور سارہ کی محبت کا سفر نہایت خوشیوں بھرا ثابت ہوتا ہے۔ وہ دونوں تمام مشکلات اور چیلنجز سے نبرد آزما ہو کر اپنے مضبوط تعلق کو برقرار رکھتے ہیں۔ ان کی زندگی کے نئے سفر کا آغاز اس لمحے سے ہوتا ہے جب دونوں اپنے خاندانوں اور دوستوں کے بیچ اپنی محبت کا اعلان کرتے ہیں۔ یہ اعلان نہ صرف ان کے رشتے کو مضبوطی فراہم کرتا ہے بلکہ ان کے لئے نئے مواقع اور خوشحالی کے امکانات بھی لے کر آتا ہے۔
محمد اور سارہ اپنی مضبوط محبت اور اعتماد کی بدولت ایک نئی زندگی کا آغاز کرتے ہیں جس میں نہ صرف محبت بلکہ عملی زندگی کی ہر خوشحالی شامل ہے۔ وہ دونوں اپنے خوابوں کی تعبیر اور مقاصد کی حصولی میں ایک دوسرے کا بھرپور ساتھ دیتے ہیں۔ ان کی زندگی کا یہ نیا سفر نہایت قابل دید ہوتا ہے، جس میں دونوں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر ہر قدم پر اپنی محبت اور اعتماد کو مزید مستحکم کرتے ہیں۔
محمد اور سارہ کے لئے ان کے محبت کا انجام ایک نئی اور خوشحال دنیا کے دروازے کھولتا ہے جہاں پر محبت، اعتماد، دوستی اور ہم آہنگی کا ماحول ہوتا ہے۔ انہیں اپنی محبت کا ثمر خوشیوں بھری ایک ایسی زندگی ملتی ہے جس میں ہر دن نیا امنگ اور خوشی لے کر آتا ہے۔ محبت کے اس نیک اور خوبصورت انجام کو محسوس کرتے ہوئے، محمد اور سارہ اپنی زندگی کے اس جدید راستے پر خوشی سے گامزن ہوتے ہیں، جہاں ہر لمحہ ایک نیا آغاز اور ہر بیماری ہمیشہ کے لئے اختتام پزیر ہوتی ہے۔

نا پوچھ حال کسی بھی اداس چہرے کا - ہر ایک شخص کی اپنی الگ کہانی ہے

 کہانی ہے

واقعات کا آغاز

کہانی کی شروعات نوجوان عمران سے ہوتی ہے جو ایک اداس چہرے کا مالک ہے۔ اس کے چہرے کی خاموشی، دل کے اندر کی گہرائیوں میں چھپے ہوئے دکھ درد کی عکاسی کرتی ہے۔ زندگی کی بہاریں اس کے لئے بے رنگ اور بوجھل سا محسوس ہوتی ہیں۔ عمران کا ماضی میں دل ٹوٹ چکا ہے، جس کی وجہ سے وہ کسی اور پر بھروسہ کرنا مشکل سمجھتا ہے۔ اس کی محبت کی تلاش میں بار بار ناکامی اس کا مقدر بن چکی ہے، اور اسے وہ خوشی نہ مل سکی جس کی وہ تلاش میں تھا۔
ماضی کے یادوں میں کھویا ہوا عمران، بچھڑے لمحات کو پل پل یاد کرتا ہے۔ ہر موڑ پر، اس کا دل پچھلے زخموں کی یاد دلاتا ہے اور اسے آگے بڑھنے کی اجازت نہیں دیتا۔ عمران کی کہانی میں محبت نے اسے بار بار مایوس کیا ہے، اور وہ اپنے دل کو دوبارہ آزمانے سے ڈرتا ہے۔ وقت کے ساتھ، اس کے دل پر بوجھ بڑھتا جاتا ہے اور وہ اپنی اداسی کے بھنور میں مزید گہرائیوں میں ڈوبتا جاتا ہے۔
عمران کے چہرے پر پڑنے والی یہ اداسی، دراصل اس کی اندرونی تلخی اور غموں کا عکس ہے۔ اس کے چہرے پر مسکراہٹ کی کمی، اس کی دل کی کیفیت کی غمازی کرتی ہے۔ ہر دن، اس کے لئے ایک نیا چیلنج بن جاتا ہے، اور وہ اپنی اداسی کو چھپانے کی کوشش میں لگ جاتا ہے۔ اس کی کہانی میں، محبت اور مایوسی کے درمیان ایک جدوجہد جاری رہتی ہے، جو اس کے دل کو نئے زخموں سے دوچار کرتی ہے۔ ہر ایک لمحہ، اس کی زندگی میں اثر انداز ہوتا ہے، اور وہ اپنے ماضی کی یادوں میں مزید گم ہوجاتا ہے۔

گمشدہ محبت کی تلاش

عمران کی زندگی میں ایک گہرے سناٹے کا راج ہے۔ اپنی معمول کی زندگی سے علیحدہ، وہ ایک فرد واحد کے پیچھے بھاگ رہا ہے – اپنی کھوئی ہوئی محبت۔ اس کی کوششیں ہمیشہ رانڈم نہیں ہوتیں، وہ خاص طور پر ان ہی جگہوں پر جاتا ہے جہاں اس کی ملاقات اپنی پہلی محبت سے ہوئی تھی۔
بچپن کے پارک کی بینچ، سمندر کی لہروں کا شور، اور قصبے کی پرانی گلیاں اس کی یادوں کو زندہ کر دیتی ہیں۔ عمران کو ہر گوشے میں اس کی پہلی محبت کا چہرہ نظر آتا ہے، ہر لمحے کی عکاسی محسوس ہوتی ہے۔ جب وہ تنہا ان مقامات پر بیٹھتا ہے، دل کی گہرائیوں میں یہ احساس جگمگا اُٹھتا ہے کہ شاید وہ کسی دن واپس آجائے۔
یادوں کے ان معموروں میں، عمران ایک نئی توانائی محسوس کرتا ہے۔ اگرچہ وہ اپنی محبت کو واپس نہیں پا سکتا، مگر ان مقامات پر جانے سے دل میں ایک امید پیدا ہوتی ہے۔ کسی طرح کی یقین دہانی کے بغیر، وہ اپنی سمت جاری رکھتا ہے۔ گزرے دنوں کی باتیں، ملاقاتیں اور پیچھے مڑنے کی چاہت، سب کچھ اسے سکون دیتی ہیں۔
عمران کی یہ جدوجہد محض وقت کا ضیاع نہیں ہے، بلکہ ایک جذباتی رشتہ ہے جو اسے اپنی “گمشدہ محبت” کی یاد دلاتا ہے۔ یہ لمحات اسے پھر سے زندگی کی نئی روشنی دکھاتے ہیں، اور وہ اپنے معمولی دنوں میں بھی کسی کھوئی ہوئی امید کی طرح چمکتا رہتا ہے۔

نئے سفر کا آغاز

عمران کی ایک زندگی میں بے شمار سنگ میل اور موڑ آچکے تھے، جن میں سے ہر موڑ پر اسے بے چینی اور اداسی کا سامنا کرنا پڑا۔ اسی کی حالت میں ایک دن اس کی ملاقات سویرا نامی ایک نوجوان لڑکی سے ہوئی، جو کسی نہ کسی سطح پر عمران کی طرح اداسی کا شکار تھی۔ دونوں کے حالات و واقعات مختلف تھے، لیکن ان کی اداسی نے ان کے درمیان ایک سمجھ اور تحسین کا پل باندھ دیا۔
ابتداء میں، عمران اور سویرا میں صرف رسمی بات چیت ہوتی تھی، تاہم کچھ ملاقاتوں کے بعد دونوں کے درمیان دوستی کی مضبوط بنیاد قائم ہوگئی۔ اس دوستی نے نہ صرف ان کی ذاتی زندگیوں میں ایک مثبت تبدیلی لائی، بلکہ انہوں نے ایک دوسرے کی زندگی میں خوشی اور اُمید کی نئی روشنی ڈالی۔ سویرا کی کہانیاں اور تجربے عمران کے لئے متاثر کن ثابت ہوئے اور عمران نے بھی اپنی زندگی کے اہم تجربات سویرا کے ساتھ شیئر کیے۔
دونوں نے ایک دوسرے کی سپورٹ کا ہاتھ تھام کر اپنے درد و غم کو یکجا کرنے کی کوشش کی۔ عمران نے سویرا کی مدد سے اپنی کھوئی ہوئی اُمید کو بحال کرنے میں کامیابی حاصل کی جبکہ سویرا عمران کی مدد سے اپنے خوف اور تشویش سے نجات حاصل کرنے لگی۔ یہ دونوں اپنے نئے سفر میں ایک دوسرے کے لئے مشعل راہ بن گئے، جو ایک ساتھ مل کر زندگی کی مشکلات کا سامنا کرتے اور نئے مستقبل کی طرف قدم بڑھا رہے تھے۔
عمران اور سویرا کی دوستی نے ان دونوں کو یہ سکھا دیا کہ مشکلات کا سامنا کرنا آسان ہوتا ہے جب آپ کسی اپنے کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں۔ ایک دوسرے کی مدد، محبت اور احترام نے ان کی زندگی میں ایک نئے سفر کا آغاز کر دیا، جہاں ہر روز وہ ایک دوسرے کے لئے مسکراہٹ پیدا کرنے کی کوشش میں لگے رہتے۔

دل کی باتیں

عمران اور سویرا کی زندگیوں میں جہاں مشکلات اور چیلنجز کا سامنا ہوتا ہے، وہیں ان دونوں نے بہت سی خوشیوں اور دردوں میں بھی وقت گزارا ہے۔ جب کبھی کوئی مسئلہ درپیش ہوتا ہے، تو دونوں بیٹھ کر دل کی باتیں کرتے ہیں۔ ان کی یہ عادت ہے کہ وہ اپنی زندگی کی کہانیوں اور تجربوں کو ایک دوسرے سے کھل کر بانٹتے ہیں۔
عمران ہر احساس کو سویرا کے ساتھ بانٹنے کی کوشش کرتا ہے، چاہے وہ کتنی ہی بڑی مشکلات کا سامنا کیوں نہ کر رہا ہو۔ اس نے محسوس کیا ہے کہ جب ہم کسی اپنے کے ساتھ اپنی کہانی شیئر کرتے ہیں تو وہ بوجھ ہلکا ہو جاتا ہے اور مسائل کے حل کی راہیں کھل جاتی ہیں۔
اسی طرح، سویرا بھی اپنے دل کی باتیں عمران کے ساتھ کر کے اپنی زندگی کی پیچیدگیوں کو آسان کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ دونوں نے یہ عهد کر رکھا ہے کہ ایک دوسرے کی باتیں سنیں گے اور مشکلات کا حل مل جلیا کریں گے۔ یہ ان کی کہانیاں اور دکھ سکھ بانٹنے کی روایات ہے جو ان کی رشتہ کو مضبوط بناتی ہے۔
ان کی کہانی کا سبق یہی ہے کہ زندگی کی مشکلات کا سامنا کرنے کے لیے ایک حقیقت پسندی اور کھلی بات چیت ضروری ہے۔ جب ہم دل کی باتیں کرتے ہیں، تو ہم اپنے رشتے کو مزید مضبوط بناتے ہیں اور ایک دوسرے کی کہانیوں کو سمجھ کر ان میں چھپے دکھ سکھ کو بانٹتے ہیں۔

محبت کا احساس

وقت کے ساتھ ساتھ عمران اور سویرا کے دلوں میں ایک دوسرے کے لیے محبت پیدا ہونے لگی۔ وہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ اپنے قیمتی لمحات گزارنے لگے، جن میں خوشیاں اور غم دونوں شامل تھے۔ جب بھی عمران سویرا کے ساتھ وقت گزارتا، وہ محسوس کرتا کہ اس کی دنیا بدل رہی ہے۔ اسی طرح سویرا بھی عمران کے ساتھ رہتے ہوئے سکون محسوس کرتی تھی۔ ان کی ملاقاتوں میں بے شمار لمحے آتے جو ان کے رشتے کو مضبوط بناتے تھے۔
محبت ایک ایسا جذبہ ہے جو جب دل میں جاگ اٹھے تو وہ انسان کو مکمل طور پر بدل دیتا ہے۔ عمران اور سویرا کے دلوں میں بھی یہ جذبہ پروان چڑھا۔ وہ دونوں ایک دوسرے کے بغیر اپنی زندگی کا کوئی تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔ روزمرہ کی زندگی کے ہر چھوٹے بڑے لمحے میں ایک دوسرے کو شامل کرنے کا خواب دیکھنے لگے۔ عمران کا وہ مضبوط اور سنجیدہ رویہ بھی سویرا کے سامنے نرمی میں بدل گیا۔ سویرا کے دل میں بھی عمران کے لیے محبت کے گہرے جذبات ہونے لگے۔
محبت کا احساس جب دل میں گھر کر لے تو انسان کا ہر فیصلہ، ہر سوچ اور ہر پل وہ شخص اہم بن جاتا ہے جس سے محبت ہو۔ عمران اور سویرا بھی اسی کیفیت سے گزر رہے تھے، ان کی ملاقاتیں اب محض ملاقاتیں نہیں تھیں بلکہ دل کے رشتے میں بندھنے کی جانب بڑھتی ہوئی قدمتیں تھیں۔ ایک دوسرے کے ساتھ رہ کر وہ دونوں اپنی زندگیوں میں نہ صرف خوشیاں بھرنے لگے بلکہ ہر لمحے کو کھل کر جینے کی خواہش بھی پیدا ہو گئی۔ اس محبت نے ان دونوں کی زندگی کو ایک نئی معنویت بخشی۔

سچائی کا سامنا

زندگی میں بعض اوقات ہمیں ایسے لمحات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جب حقیقت اپنی پوری قوت کے ساتھ سامنے آتی ہے۔ عمران اور سویرا کی کہانی بھی ایسی ہی ہے۔ محبت کا سفر ہمیشہ ہموار نہیں ہوتا، بلکہ اس میں مشکلات اور چیلنجز بھی شامل ہوتے ہیں۔ کبھی کبھی محبت کو زندہ رکھنے کے لئے قربانیاں دینا پڑتی ہیں۔ یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ہر رشتہ اپنی بنیاد سچائی پر رکھتا ہے، اور بغیر سچائی کے کوئی بھی رشتہ مضبوط نہیں ہو سکتا۔
عمران اور سویرا، دونوں نے اپنے دلوں میں چھپے جذبات کا سامنا کیا۔ ایک دوسرے کی خامیوں اور خوبیوں کو جاننا اور قبول کرنا ان کے رشتے کو مضبوط بناتا ہے۔ سچائی سے واہگزر کرنا کبھی بھی آسان نہیں ہوتا، لیکن اس کے بغیر محبت کا کوئی مطلب باقی نہیں رہتا۔ جب وہ اپنی سچائیوں کا سامنا کرتے ہیں، تو انہیں احساس ہوتا ہے کہ ان کے رشتے کی بنیاد کمزور ہے اور اسے مضبوط بنانے کے لیے محنت کی ضرورت ہے۔
سچائی کا سامنا کرنا محض ایک عمل نہیں، بلکہ یہ ایک مسلسل کوشش ہے جو ایمان اور بھروسے کا مطالبہ کرتی ہے۔ یہی عمل عمران اور سویرا کے رشتے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اپنے دلوں کی سچائی کو قبول کرتے ہوئے وہ یہ بخوبی جانتے ہیں کہ محبت میں کبھی کبھی درد کو سہنا پڑتا ہے، لیکن اسی درد میں ایک نئی مضبوطی چھپی ہوتی ہے۔
عمران اور سویرا کے لئے سچائی کا سامنا کرنا ایک نئے مرحلے کا آغاز تھا۔ اس راستے پر چلتے ہوئے انہوں نے اپنی محبت اور رشتے کو ایک نئی سطح پر پہنچایا، جہاں سچائی اور قربانی کی بنياد پر مضبوطی اور محبت کی ایک نئی کہانی لکھی جا سکتی تھی۔

خوابوں کی تعبیر

عمران اور سویرا خوابوں کی روشن دنیا میں سفر پر نکلتے ہیں۔ ان کا عزم اور حوصلہ انہیں کبھی مایوس نہیں ہونے دیتا۔ انہوں نے اپنے خوابوں کی تعبیر پانے کا فیصلہ بہت پہلے کر لیا تھا، اور آج وہ اس کا عملی مظاہرہ کرتے ہیں۔ محبت اور خوشی کے راستوں پر چلتے ہوئے وہ سکون کی ندیوں تک پہنچ جاتے ہیں۔
عمران نے ہمیشہ اپنے خوابوں کو حقیقت میں بدلنے کا عزم کیا تھا۔ اس نے اپنے مقصد تک پہنچنے کے لیے نہایت محنت کی۔ سویرا بھی اس کے ساتھ ہمیشہ قدم بقدم رہی۔ ان دونوں کی کوششیں اور جذبہ ان کے خوابوں کو پورا کرنے کے لیے اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ خوابوں کی تعبیر انہیں ایسی دنیا میں لے آتی ہے جہاں خوشیاں اور اطمینان ہی اطمینان ہوتا ہے۔
خوابوں کی دنیا میں عمران اور سویرا کو ایسے لمحات ملتے ہیں جہاں ان کے درمیان محبت، اعتماد اور خلوص کا ایک نیا چہرہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ اس سفر کے ذریعے انہیں اپنی زندگی کی حقیقت کو بہتر طور پر سمجھنے کا موقع ملتا ہے۔ خوابوں کی تعبیر اور حقیقت کی زندگی کا فرق اور امتزاج انہیں خود اختیار کرنے کی طاقت دیتا ہے۔
خوابوں کی تعبیر پانے کی کوشش میں عمران اور سویرا یہ سیکھتے ہیں کہ محبت اور محنت کا مطلب کیا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ خوابوں کو حقیقت میں تبدیل کرنے کے لیے نہ صرف سخت محنت کی ضرورت ہوتی ہے، بلکہ وہ ایک دوسرے کے تعلق اور اعتماد کو بھی نہایت اہمیت دیتے ہیں۔

نئی امیدوں کا آغاز

کہانی کے اختتام پر ایک نیا آغاز ہمیشہ ناول نگاری کا محور ہوتا ہے۔ عمران اور سویرا کی کہانی اس حوالے سے ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ مشکلات کے بعد کیسے نئی امیدیں پنپ سکتی ہیں۔ جس سفر سے وہ دونوں گزرے، وہ نہ صرف ان کے ماضی کے اداس لمحوں کا خاتمہ تھا بلکہ ایک روشن مستقبل کی شروعات بھی۔ یہ سفر ان دونوں کے لیے تو شاید کٹھن رہا ہو، لیکن ان کے پائیدار جذبے نے اس کاوش کو ممکن بنایا۔
عمران اور سویرا نے اپنی زندگی کے اداس چہروں کو خوشیوں سے درخشاں کرنا شروع کیا۔ یہ محض ایک نئے گھر کا آغاز نہیں تھا، بلکہ ان کی خوشیوں کا سفر بھی آغاز ہوا۔ ہر وہ پل جو ماضی میں مشکل نظر آتا تھا، اب ایک نئے امید سے بھرپور تھا۔ ان کی کہانی میں ہمیں دکھایا گیا کہ کیسے امید اور پختہ ارادے سے انسان اپنی مشکلات کو مات دے سکتا ہے۔
نئی زندگی کی شروعات امید کی نئی کرن کے ساتھ ہوتی ہے۔ عمران اور سویرا کی حوصلہ مندی نے ان کے حالات کو بہتر بنایا، اور ان کی کہانی دوسروں کے لیے ایک مثال بنی۔ یہ داستان یہ پیغام دیتی ہے کہ کسی بھی اداس چہرے کے پیچھے ایک منفرد کہانی ہوتی ہے، اور ضروری ہے کہ ہم ایک دوسرے کی کہانیوں کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ اس طرح ہم نا صرف اپنے ارد گرد کے لوگوں کو بہتر طور پر جان سکیں گے بلکہ ان کی مشکلات کا حصہ بن کر انہیں حوصلہ بھی دے سکیں گے۔

ntertainment

Richard Simmons’ official cause of death revealed

by: Christine Samra

Posted: Aug 29, 2024 / 11:41 AM PDT

Updated: Aug 29, 2024 / 11:56 AM PDT

Richard Simmons attends the Elizabeth Glaser Pediatric AIDS Foundation’s 24th Annual “A Time For Heroes” at Century Park on June 2, 2013, in L.A. (Credit: Jason Kempin/Getty Images for EGPAF)

According to the American Heart Association, “Atherosclerotic cardiovascular disease (ASCVD) involves plaque buildup in artery walls, which includes conditions such as acute coronary syndrome and peripheral artery disease, and can cause a heart attack, stable or unstable angina, stroke, transient ischemic attack (TIA) or aortic aneurysm.”

“Per reports, he experienced an episode of dizziness and collapsed on the floor on the evening of July 11, 2024. He was found the next morning on July 12 and spent the day in bed,” the report stated. “On the morning of July 13, he was found unresponsive on the bedroom floor. His death was pronounced at the scene.”

The autopsy showed “a fracture of the left femur and arteriosclerotic cardiovascular disease,” the report continued. “There were incidental bilateral renal cortical cysts and a gallstone.”Barry Keoghan to star in ‘Peaky Blinders’ movie

A toxicology report showed “the presence of diphenhydramine, trazodone, and zolpidem,” but they “do not appear to have contributed to the cause of death.”

Diphenhydramine is a known antihistamine and trazodone is used to treat depression. Zolpidem “is primarily used in the FDA-approved short-term treatment of insomnia aimed at patients with difficulty falling asleep,” according to the National Institutes of Health.

Last week Lenny clarified that the “toxicology report was negative other than medication Richard had been prescribed.”

Deputy Medical Examiner Dr. Grant Ho signed off on the report.

Simmons passed away at his home in Los Angeles at 76 years old.

Fall is bringing fantasy (and romantasy), literary fiction, politics and Taylor-ed book offerings


At Barnes & Noble, senior director of books Shannon DeVito notes that fantasy has expanded and diversified, blending horror and romance and mystery. She cites Maas and Yarros, and such upcoming releases as Frances White’s gay-themed “Voyage of the Damned,” John Gwynn’s Norse-inspired “The Fury of the Gods” and Ann Liang’s mythical “A Song to Drown Rivers.”

“It’s event-proof,” DeVito says of fantasy and its offshoots. “It doesn’t depend on news of the day.”

Election Fallout

President Joe Biden’s decision not to seek re-election may have little effect on the fantasy market, but it upended the fall campaign and left a void in the publishing schedule: No one had time to work up in-depth books on the Democrats’ new nominee, Vice President Kamala Harris. The best chance for revelations likely comes from Bob Woodward’s “War,” which centers on Biden’s handling of the conflicts in Ukraine and the Middle East, but also promises insights on Harris and the presidential race.

Publishers of anti-Biden books are proceeding with scheduled fall releases, including former New York City Mayor Rudy Giuliani ’s “The Biden Crime Family.” Harris’ Republican opponent, former President Donald Trump, has a book of photos coming, “Save America,” which on its cover has the AP’s image of him bloodied and raising his fist after the assassination attempt in July. His wife, former first lady Melania Trump, is releasing the memoir “Melania.” Donald Trump’s estranged niece and bestselling author, Mary Trump, returns with more family (horror) stories in “Who Could Ever Love You.”

H.R. McMaster, who served briefly as national security adviser during the Trump administration, has written “At War With Ourselves.” Onetime Trump opponent Hillary Clinton reflects on marriage, faith and politics in the essay collection “Something Lost, Something Gained.” Project 2025 architect Kevin Roberts’ “Dawn’s Early Light,” for which GOP vice presidential nominee J.D. Vance wrote the foreword, has been postponed until just after the election amid Republican efforts to distance themselves from the controversial blueprint for a second Trump term. But pre-election readers can consider recommendations from Joel B. Pollak’s “The Agenda: What Trump Should Do in His First 50 Days,” with a foreword from Trump ally Steve Bannon.

Prose and Poetry

Sally Rooney’s “Intermezzo” is a story of grief and sibling rivalry from the author known for the best sellers “Normal People” and “Conversations With Friends.” Nobel laureate Olga Tokarczuk ‘s “The Empusium: A Health Resort Horror Story” is the Polish’s author variation of the Thomas Mann classic “The Magic Mountain.” Nobelist Annie Ernaux of France combines memoir and images in “The Use of Photography” and perennial Nobel candidate Haruki Murakami expands on an early short story for “The City and Its Uncertain Walls,” which his Japanese publisher is calling “soul-stirring, 100% pure Murakami world.”

Pulitzer Prize winner Richard Powers ’ “Playground” touches upon everything from climate change to artificial intelligence, while another Pulitzer winner, Louise Erdrich, sets “The Mighty Red” on a North Dakota beet farm during the economic crash of 2008. In “Tell Me Everything,” Pulitzer winner Elizabeth Strout returns to fictional Crosby, Maine, and such friends from “Olive Kitteridge and ”Olive, Again” as the elderly title character and the scribe Lucy Barton.

“I never intended to write them about them again. I think I keep bringing them back because they are so very well known to me,” Strout says. “They feel almost as real as actual people. I know they’re not real people, but they feel like real people.”

John Edgar Wideman blends fiction, history and memoir in “Slaveroad,” and Rebecca Godfrey’s “Peggy” is a fictional take on the heiress-art collector Peggy Guggenheim that was completed by Leslie Jamison after Godfrey’s death in 2022. New fiction is also coming from Richard Price, Lee Child, Michael Connelly, Kate Atkinson, Janet Evanovich, Rachel Kushner, Richard Osman, Tova Reich, Paula Hawkins, Jami Attenberg and Rumaan Alam.

Margaret Atwood began her career as a poet and her verse is collected in “Paper Boat: New and Selected Poems: 1961-2023,” while “Blues in Stereo” features early work from the late Langston Hughes. Prize winners Paul Muldoon, Kimiko Hahn and Matthew Zapruder all have collections coming out, along with new books from Billy Collins, Ben Okri, Kimiko Hahn, Frank X Walker and E. Hughes.

“Dear Yusef” is a tribute to the celebrated poet Yusef Komunyakaa that includes contributions from Terrance Hayes, Major Jackson and Sharon Olds. “Latino Poetry: The Library of America Anthology” compiles verse from the 17th century to the present.

Taylor-ed

Like all pop culture phenomena, from the Beatles to “Star Wars,” Taylor Swift ‘s appeal isn’t confined to a single art form. Her songs and her life have inspired young adult novels, children’s books and biographies and the wave continues.

Katie Cotugno’s “Heavy Hitter” is an athlete/pop star romance based in part on Swift and NFL great Travis Kelce, while “The 13 Days of Swiftness” is a picture story for holiday shoppers who can chant such lines as “12 strings for strumming” and “11 bracelets beaded.”

The anthology “Poems for Tortured Souls” includes verse from Emily Dickinson, Edna St. Vincent Millay and other alleged kindred souls of Swift’s. Biographies/critical studies include the picture book “Taylor Swift: Wildest Dreams,” by Erica Wainer and Joanie Stone; and Rolling Stone writer Rob Sheffield’s “Heartbreak Is the National Anthem: How Taylor Swift Reinvented Pop Music.”

The Famous and Near Famous

Lisa Marie Presley ‘s “From Here to the Great Unknown” was nearly done before she died in 2023, and was completed by daughter Riley Keough. In “Didion and Babitz,” Lili Anolik draws upon newly discovered letters as she contrasts the California bards Joan Didion and Eve Babitz, who died within days of each other in 2021 and whose lives, Anolik documents, were more entwined than previously known.

Celebrity books also will include Cher’s “The Memoir, Part One,”Al Pacino ‘s “Sonny Boy,” Josh Brolin’s “From Under the Truck,” Kelly Bishop’s “The Third Gilmore Girl” and Connie Chung’s ”Connie.” Pedro Almodóvar shares stores-allegories-musings in “The Last Dream” and Neneh Cherry looks back on her life and music in “A Thousand Threads.”

Past and Present

“Patriot” is a posthumous memoir from imprisoned Russian opposition leader Alexei Navalny. Supreme Court Justice Ketanji Brown Jackson has written “Lovely One: A Memoir,” Malcolm Gladwell returns to famous territory in “Revenge of the Tipping Point,” and Ta-Nehisi Coates explores the power of stories, and misinformation, in “The Message.”

Numerous books draw upon racism in U.S. history and those who fought against it. David Greenberg’s “John Lewis” is a biography of the late civil rights activist and congressman, while Wright Thompson’s “The Barn” promises new information on the murder of Emmett Till. Russell Cobb’s “Ghosts of Crook County,” like David Grann’ s “Killers of the Flower Moon,” tells of a white oil man in Oklahoma who seeks to steal Native property. In “The Black Utopians,” Aaron Robinson tracks a century of planned communities and asks, “What does utopia look like in black?”